Skip to content
Home » Blog » Sufaid Faam Ka Bojh سفید فام کا بوجھ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، تراسیواں انشا The White Man’s Burden, Grandpa & me, Urdu Hindi Podcast Serial, Episode 84

Sufaid Faam Ka Bojh سفید فام کا بوجھ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، تراسیواں انشا The White Man’s Burden, Grandpa & me, Urdu Hindi Podcast Serial, Episode 84

Rudyard Kipling wrote the poem “The White Man’s Burden” about the belief of the Western world that industrialisation is the way to civilise the Third World. This story travels in postcolonial Uganda to see what happened

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

سفید فام کا بوجھ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، تراسیواں انشا، شارق علی
ہال کی کھلی کھڑکی سے رن وے پر کھڑے بوئنگ کے پرواز کی تیاری میں تیزی سے چلتے انجن مجھے پریشان کیے ہوۓ تھے. کھینچے ہوۓ بریک ایک لمحے کو ناکارہ ہوتے تو ہم سب اس دیؤ پیکر تیر کے ٹھیک نشانے پر تھے. عملے کی بے نیازی سے ظاہر تھا کہ یہ روز کا معمول ہے. قطار میں بیشتر کالے ، کچھ گورے، دو جاپانی اور مجھ سمیت تین ایشیائی تھے. ائیرپورٹ کی عمارت بہت سادہ بلکہ عارضی نوعیت کی تھی. حیرت ہوئی کہ یہ ہے اینٹیبے  ائیرپورٹ جس پر اسرئیلی کمانڈوز نے ١٩٧٦ میں کامیاب آپریشن کر کے یرغمال ہم وطنوں کی جان بچائی تھی. انکل پٹیل یوگنڈا کا ذکر کر رہے تھے. بولے. پاسپورٹ پر مہر لگی تو میزبان کی جیپ میں بیس میل دور درالحکومت کمپالا میں رات گزارنے ہوٹل پہنچے . راستے میں سر سبز لیکن  چھوٹی پہاڑیاں اور جھگیوں کی بستیاں ملیں . ننگ دھڑنگ بچے سرخی مائل مٹی کے میدان میں فٹ بال کھیل رہے تھے. زنانہ لباس قدامت پسند اور بوسیدہ ، سڑکوں پر زیادہ تر موٹر سائیکلیں کچھ کا ریں بھی. میزبان نے بتایا کہ چرچ میں عبادت کا اوسط دورانیہ پانچ گھنٹے ہے لیکن ملک بھر میں  شراب اور گوشت کا استعمال حد سے بڑھا ہوا. کیلے، اننناس اور ایواکیڈو حسب موسم سستے اور ذائقہ دار. غربت ایسی کہ دکھی کر دے. آدھی آبادی ایک ڈالر روز پہ گزارا کرتی ہے جبکہ گیس اور تیل کے وافر ذخائر ابھی استعمال بھی نہیں ہوۓ . کولونیلزم کے لگائے زخم اب تک تازہ ہیں. کولونیلزم کیا ہوتا ہے دادا جی ؟ میں نے پوچھا. بولے. یورپ کے لوگ ترقی یافتہ ہوۓ تو نئی دنیاؤں کی تلاش میں نکلے. ملکوں پر قابض ہو کر جب انہوں نے مقامی حقائق کو نظر انداز کیا اور مغربی سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظریات مسلط کیے تو یہ کولونیلزم کہلایا. یا نی آپا بولیں.رڈیارڈ کپلنگ نے کولونیلزم کو سفید فاموں پر بوجھ کہہ کر یہ تاثر دیا تھا کہ غلام ملکوں کی ثقافت اتنی کمزور تھی کہ معاشرے کو چلانا ممکن ہی نہیں تھا.  اور یہ بوجھ سفید فام ثقافت کو اٹھانا پڑا . اس غیر منصفانہ جواز کی بنیاد پر انڈیا، آسٹریلیا، نیو زیلینڈ، کینیڈا اور بیشتر افریقہ پر حکمرانی کی گئی. اس ظلم کی حمایت مذہبی ٹھیکےداروں نے بھی کی اور خوب عیسائیت پھیلائی . کمپالا کے بعد کہاں گئے آپ؟ میں نے اچانک پوچھا. بولے. صبح ہوئی تو اسی میل دور لیک وکٹوریہ کے شمالی کنارے پر واقع جنجا پہنچے. کہتے ہیں دریاے نیل کا ہزاروں میل لمبا سفر جنجا ہی سے شروع ہوتا ہے. ہمارا قیام جنجا نائل ریسورٹ نامی ہوٹل میں تھا. مرکزی عمارت میں سوئمنگ پول اور کئی ریستوران. ساتھ کی کشادہ پہاڑی پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے آرام دہ کاٹیج جس کے لان سے نظر آتا نیچے زور و شور سے بہتا دریاۓ نیل. کمرے کی کھڑکی کھلی ہو تو بہتے دریا کی مسلسل آواز سنائی دیتی . اگلے دن جنجا گئے. چھوٹا سا با رونق قصبہ ہے، دو ایک بڑی سڑکیں، بیشتر عمارتیں خستہ حال لیکن طرز تعمیر کولونیل. کولونیل دور سے نقصان کیا پہنچا غلام ملکوں کو؟ میں نے بات بدلی . یا نی آپا بولیں. اپنے انداز میں مستحکم اور ہم آہنگ معاشرے سیاسی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے. جاگیردارانہ سوچ کولونیلزم ہی کی دین ہے.امیر اور غریب کو قدرتی اصول سمجھ کر قبول کر لینا ایسا ہی ہے جیسے انگریز حکمران اور مقامی لوگ غلام کا تصور مان لیا جائے . ذہنی آزادی تو تب ملے گی جب معاشرے میں ہر فرد مساوی قرار پائے یعنی وسائل کا برابر سے حقدار. اور ایسا بغیر انقلاب کے ممکن نہیں ممدو…….جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *