Skip to content
Home » Blog » پھول والوں کی سیر، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اٹھا رواں انشا Phool Walon Ki Sair, Grandpa & me, Inshay Serial, Episode 18

پھول والوں کی سیر، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اٹھا رواں انشا Phool Walon Ki Sair, Grandpa & me, Inshay Serial, Episode 18

This story is about a week long festival in Mehrauli, Delhi, that brings Hindus and Muslims together to offer floral chaadar and pankha to Sufi saints and Yogmaya Mandir. Can it become a symbol of communal harmony?

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

پھول والوں کی سیر، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اٹھا رواں انشا، شارق علی
فلم کا آخری شو دیکھ کر نکلے تو دل بہت بوجھل تھا.وہ سین بار بار آنکھوں کے سامنے آتا جب سرحد کے اس طرف مولوی اغوا شدہ کم عمرہندو لڑکی کو زبردستی مسلمان کر کے نکاح کر لیتا ہے.یا جب سرحد کے دوسری طرف  کچھ بلوائی گوشت کھا لینے کے شبے میں ایک مسلمان کو چھریوں کے پے در پے وار سے چھلنی کر دیتے ہیں. پوری رات کروٹیں بدلتے گزری. صبح ناشتے کی میز پر پہنچا تو سب پہلے ہی سے موجود تھے. رات کی فلم اور ہندو مسلم تناؤ کا ذکر چل نکلاتو دادا جی بولے. نفرت کی خاردار باڑھ حکمرانوں کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے اور عوام کو لہو لہان. مذہبی منافرت سے پہلے معیشت اور پھر ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں، باہمی رواداری کی ایک مثال دہلی کے محلے مہرولی میں ہندو مسلم اشتراک سے سجنے والا میلہ ہے،پھول والوں کی سیر. کچھ بتائے اس میلے کے بارے میں، میں نے کہا. دادا جی بولے. ہر مون سون میں ہندو مسلم پھول فروش ہم آہنگی کی علامت کے طور پر یہ تاریخی میلا مناتے ہیں. کہتے ہیں جب برطانوی راج نے بہادرشاہ ظفر کو تاجدار مقرر کر دیا تو ان کے سوتیلے بھائی  مرزا جہانگیر نے طیش میں آ کر ریذیڈنٹ بہادر پر گولی چلا دی. گولی تو بے اثر رہی لیکن مرزا جہانگیر کو الہ باد جیل میں قید کر دیا گیا. مرزا کی والدہ نے مانت مانی کے مرزا کی رہائی پر وہ نظام الد ین اولیا کے مزار سے بختیار کاکی کی درگاہ تک پیدل جائیں گی. منت قبول ہوئی تو انہوں نے ایسا ہی کیا. یہ میلہ اسی منّت کی یادگار ہے. پھر یہ دھیرے دھیرے ہندو مسلم ہم آہنگی کی علامت بن گیا. اس میلے کو دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا جواہر لال نہرو کے سر ہے جنہوں نے ١٩٦٢ میں اسے نئی زندگی دی. نظام الدین اولیا سے جلوس نکلتا ہے تو شنہائی کی دلفریب دھنیں بجانے والے اور رقص کرتے لوگ اس کی قیادت کرتے ہیں اور ہندو مسلم برابر سے شریک ہوتے ہیں. پھر جلوس درگا جاگ مایا کے مندر پہنچ کر پھولوں کے پنکھوں اور چادروں سے مندر کو سجاتا ہے. وہاں سے نکل کر مزید آگے بڑھتے ہوے یہ جلوس تیرھویں صدی کے صوفی بختیار کاکی کی درگاہ پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے.اس درگاہ کوبھی پھولوں کی چادروں اور پنکھوں سے سجایا جاتا ہے. ہفتہ بھر جاری رہنے والے اس میلے میں مہرولی کے جہاز محل اور حوض شمسی میں موسیقی، کتھک ناچ، مشاعرے، قوالی اور نوٹنکی کا سماں بھی بندھتا ہے. پتنگ بازی کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں، کبڈی یا دنگل  کا  میدان جمتا ہے. آج کل دہلی کے راج بہادر کو بھی پھولوں کے پنکھے اور چادر پیش کی جانے لگی ہے تا کہ میلے کی سرپرستی برقرار رہے. میں جوان تھا تو یہ میلا دہلی کی ثقافتی رنگا رنگی اور ہم آہنگی کی علامت ہوا کرتا تھا. جانے اب محبّت کا یہ سما باقی ہے یا نہیں ……جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *