Skip to content
Home » Blog » ریت پر سفر، دادا اور دلدادہ ،انشے سیریل ، چوبیسواں انشا Ahmed Shamim, a journey of love. Grandpa & me. Urdu/Hindi Pod cast serial. Episode 24

ریت پر سفر، دادا اور دلدادہ ،انشے سیریل ، چوبیسواں انشا Ahmed Shamim, a journey of love. Grandpa & me. Urdu/Hindi Pod cast serial. Episode 24

Ahmed Shamim (1927-1982) was a freedom fighter, a lover and an Urdu poet. This story is about his love and his well known poem “A moment of lost journey” (Rait Per Sufer Ka Lamha)

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

ریت پر سفر، دادا اور دلدادہ ،انشے سیریل ، چوبیسواں انشا ،  شارق علی
آتشدان میں لگی آگ کی حدّت نے  کمرہ بہت آرام دہ بنا دیا تھا. دادا جی،  میں اور یانی آپا سمارٹ ٹی وی پرباری باری اپنی پسند کی ویڈیو دیکھتے اور تبصرے سے محظوظ ہوتے. یا نی آپا کی با ری پر نیرہ نور کی گا ئی ہوئی احمد شمیم کی نظم کا خوبصورت بول کبھی ہم خوبصورت تھے ختم ہوا تو میں نے کہا. اس نظم میں مجھے بچپن تو صاف دکھائی دیتا ہے لیکن ریت پر سفر کہیں بھی نہیں. پھر اس کا عنوان ریت پر سفر کا لمحہ کیوں ہے؟ دادا جی بولے . شاعر کی کہانی معلوم ہو تو نظم سمجھنا آسان ہو جاتا ہے. تو پھر سنا یے؟  دادا جی بولے. تقسیم ہوئی تو احمد شمیم  سری نگر کا ہونہار طالب علم اور کشمیر تحریک آزادی کا رکن تھا. انڈین سیکورٹی فورسز کے بار بار تشدد نے اسے اپنی ماں اور خاندان چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور کیا. پہلے آزاد کشمیر ریڈیو میں فری لانس صحافی اور پھر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں سرکاری ملازمت کرتے کرتے ڈائریکٹر. اس کی نظمیں بچھڑی ہوئی ماں، کشمیری بچپن اور آزادی کا خواب کبھی نہ بھول سکیں. یانی آپا نے آتشدان ذرا دھیما کر دیا اور بولیں. ١٩٥٠ میں قرآن پڑھانے والی بزرگ خاتون جنھیں وہ ماں جی کہتا تھا، کے یہاں پینگ گیسٹ کے طور پر رہتے ہوے اس نے کم گو اور اکثر سوچ میں گم رہنے والی مونیرا کو دیکھا. بات کرنے کی جسارت بے گھر کر سکتی تھی . وہ خاموش رہا. مونیرا بچھڑ گئی. اور وہ ترقی پسند تحریک کا رکن بن کر حکومتی تشدد کا نشانہ بنا. ١٩٦١ میں اتیفاقاً مونیرا اسے دوبارہ ملی. محبّت نے بے سروسامانی اور اختلافات کے طوفان کو شکست دے دی. مونیرا ان دنوں کی یاد میں احمد شمیم کے خطوط پر مبنی کتاب” ہوا نامہ بر ہو” میں لکھتی ہے مال روڈ پر لوگوں کا ہجوم تھا. ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اپنی نی دنیا تخلیق کر رہے تھے. سا ری دنیا اور سا رے  دکھوں سے بے نیاز. یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم صدیوں سے ایک ساتھ چل رہے ہوں، ہم امر ہوں، ہر روپ میں ان مٹ. ہم ہی کائنات ہوں. وہ کہ رہے تھے تم میرا خواب ہو، ایک ایسی لڑکی جو دکھ اٹھانے کی بہت استعداد رکھتی ہے” تقسیم نے اسے ایک اور زخم دیا. ١٩٦٣ میں اس کی ماں رخصت ہوئیں تو وہ مٹی  دینے سری نگر نہ جا سکا. وہ سوچتا تھا مضبوط پاکستان کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہو گا. ١٩٧١ نے یہ یقین بھی چکنا چور کر دیا. سقوط ڈھاکہ کی رات اسے دل کا پہلا دورہ پڑا. ساری قربانیاں رائیگاں دکھائی دیں. ١٩٨٢ میں وہ آخری ریڈیو انٹرویو میں کہتا ہے ریت پر سفر کرنے والے پیچھے آنیوالوں کے لئے کوئی ورثہ نہیں چھوڑتے. تیز ہوائیں قدموں کے نشان تک مٹا دیتی ہیں. بےسود سفر اور گم کردہ منزل. اس کی نظم ریت پر سفر کا لمحہ. کھوئے ہوے بچپن، بچھڑی ہوئی ماں، بکھرے خواب، درون ذات کی ویرانی اور  اس کے سفر کی رائیگانی  کا نوحہ ہے. ١٩٨٢ ہی میں دل کا دوسرا دورہ جان لیوا ثابت ہوا………..جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *