Skip to content
Home » Blog » اٹلانٹس، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، اکیسواں انشا Atlantis, Grandpa & me. Inshay Serial, Urdu/Hindi Pod cast Episode 21

اٹلانٹس، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، اکیسواں انشا Atlantis, Grandpa & me. Inshay Serial, Urdu/Hindi Pod cast Episode 21

Mystery is never ending. Enjoy the fascinating tale of Atlantis by Plato in this episode.

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

اٹلانٹس، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، اکیسواں انشا، شارق علی
ہم سب آتشدان  کے پاسس بیٹھے پھول بن کی سردی سے لطف اندوز ہو رہے تھے. سوکھے انجیر، پستوں سے بنی سفید ایرانی مٹھائی، یا نی آپا کے ہاتھ کا بنا تازہ اسپنج کیک اور گرم کافی. کمرہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد قہقہوں سے گونج اٹھتا. دیوار پر لگی آئل پینٹنگ دیکھ کر یا نی آپا نے کہا. دور دراز جزیرے کا حسین تاثر ہے اس تصویر میں. ممکن ہے اٹلانٹس ایسا ہی ہو.دادا جی بولے. پلاٹو کی کہانیاں انسانی صورت حال  کی نبض پر ہاتھ رکھنا نہ جانتیں تو شاید کب کی بھلا دی گئی ہوتیں. اٹلانٹس کی کہانی بھی ٢٣٠٠ سال سے زندہ ہے اور اس کی پر اسراریت ختم ہونے میں نہیں آتی. یہ قدیم فرضی شہر آج بھی ہم انسانوں کے تصور و خیال میں نت نے رنگوں سے سجا رہتا ہے. اس شہر کے بسنے والے آدھے دیوتا تھے اور آدھے انسان. وہ سمندر کے کنارے چھوٹے چھوٹے جزیروں پر بنے محلات میں رہتے تھے. ایک بڑی سی نہری گزرگاہ ان تمام جزیروں کے قلب سے ہو کر گزرتی اور مرکز میں موجود سب سے بڑے جزیرے سے جو دارلخلافہ تھا، ان سب جزیروں کو ملائے رکھتی. ان سر سبز و شاداب جزیروں پر سونے، چاندی اور دیگر بیش قیمت دھات کی عمارتیں بنی ہوئیں تھیں. راستوں کے کنارے خوبصورت اور نایاب درخت لگے ہوے تھے اور جنگلوں میں آزادانہ گھومتے قسم قسم کے دلکش جنگلی جانور. مرکزی جزیرے کی پر شکوہ عمارتوں سے حکمرانوں کی خوش ذوقی اور طاقت کا اظہار ہوتا تھا. پھر یہ تہذیب جو عالی ظرف تھی  آہستہ آہستہ لالچ اور آسائش میں گرفتار ہو گئی. اعلی اخلاقی قدریں اور اخلاقی اصول پامال ہونے لگے. اس بات نے دیوتاؤں کو غضبناک کر دیا. کہانی کا آخری سین آتش فشانی کی ہولناک رات ہے اور زلزلے سے اٹھنے والی سمندر کی بے رحم لہروں میں اٹلانٹس کا ہمیشہ کے لئے سمندر میں ڈوب جانا. کہانی کا وا قعاتی تسلسل حیران کن حد تک حقیقی ہے. مہم جو صدیوں سے اور آج بھی اس گم شدہ شہر کی تلاش کر رہے ہیں. میڈی ٹیرانیان ، اسپین، انٹاکرکٹکا،غرض یہ کے دنیا کے نقشے میں موجود کون سی ایسی جگہ ہے جہاں اٹلانٹس کی موجودگی کا قیاس نہ کیا گیا ہو. اس کا امکان بہت کم ہے کے پلاٹو کی یہ کہانی سچ ہو. غالب امکان یہ ہے کے اس نے فلسفیانہ مباحث کے لئے یہ پہلو دار کہانی گڑھی ہو. انسان فطرت ، حقیقت کل کی تلاش، مثالی معاشرے جیسے موضوعات اسے بہت محبوب تھے. اٹلانٹس کی کہانی میں یہ سب کچھ موجود ہے. یونان کے جزیرے سنتورینی کی تین ہزار چھ سو سال پہلے آتش فشانی سے مکمل تباہی کے نتیجے میں عظیم منوان تہذیب کا مٹ جانا بہت ملتا جلتا لگتا ہے لیکن پلاٹو کا اٹلانٹس اس کے مطابق نو ہزار سال پرانا تھا— جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *