Skip to content
Home » Blog » یہ دیوارگرا دو ، دنیا گر ، انشے سیریل ، دسواں انشا Berlin wall, DUNYAGAR, URDU PODCAST SERIAL, EPISODE 11

یہ دیوارگرا دو ، دنیا گر ، انشے سیریل ، دسواں انشا Berlin wall, DUNYAGAR, URDU PODCAST SERIAL, EPISODE 11

Story of a historic moment in recent history. Read, listen, reflect and enjoy!

ہیہ دیوارگرا دو ، دنیا گر ، انشے سیریل ، دسواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
پروف بولے۔ نو نومبر کا دن تھا اور سن تھا انیس سو نواسی۔ میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ برلن کے گلی محلوں میں عوامی ہجوم درجنوں پھر سینکڑوں اور اب بڑھ کر ہزاروں تک پوھونچ چکا تھا . طویل فاصلوں کے باوجود دنیا بھر کے دور بیٹھے طالب علم الحاق کی حمایت میں نعرے لگاتے جرمن نوجوانوں کے ساتھ تھے .  پڑھتے پڑھتے تھک گیا تو سوچا خبریں دیکھ لی جایں . ایک پر جوش منظر آنکھوں کے سامنے تھا. رات کے پس منظر میں ٹی وی سکرین پر لاتعداد لوگ روشنی کے لیمپ ، ہتھوڑے اور بیلچے تھامے سامنے کی کونکریٹ دیوار پر پے در پے وار کر رہے تھے۔ پیچھے اُن کا حمایتی ہجوم ایک دوسرے کا ہاتھ  تھامے نعرے لگا رہا تھا  ، کچھ دیوانے بارہ فٹ اونچی  فصیل عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سامنے مسلح گارڈ ہتھیاروں سمیت محض تماشائی بنے کھڑے تھے۔ اتنے ہجوم کے سامنے وہ بے بسی کی تصویر تھے. سرکاری اعلان تو اگلی صبح عوام کو سرحد کے دونوں پار جانے کی مکمل آزادی کا تھا  ۔ لیکن اسی رات شہر کے دونوں جانب کی عوام دیوار گرانے جمع ہو چکی تھی  ۔ وہ سرحد جو محض برلن شہر کی نہیں دو دنیاؤں کی تقسیم تھی۔  لیکن وہ دیوار کیوں گرانا چاہتے تھے؟  میں نے پوچھا۔ بولے . جب کوئی حکومت عوام کی مرضی کے خلاف ان کی مشترکہ ثقافت ، جذباتی رشتوں ، آرزوؤں اور امنگوں کے درمیان رکاوٹ کھڑی کرتی ہے تو بلآخر اس ریت کی فصیل کو پاش پاش ہونا ہی ہوتا ہے . تیس سالہ سرد جنگ کے دوران کھنچے آہنی پردے کی علامت دیوار برلن کا انجام بھی ایسا ہی ہوا تھا. یہ تعمیر کب کی گئی ؟  سوفی نے پوچھا ۔ بولے. برلن شہر کو دو حصّوں میں تقسیم کرتی ستائیس میل لمبی ، چار فٹ چوڑی اور بارہ فٹ اونچی یہ دیوار انیس سو اکسٹھ میں مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت نے تعمیر کروائی تھی. مقصد مشرقی جرمنی سے لوگوں کو مغربی جرمنی کی جانب فرار ہونے سے روکنا تھا .  یہ دو دنیاؤں کی سرحد تھی . ایک جانب مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک اور سوویت یونین تھا اور دوسری جانب یورپ کی لبرل مغربی جمہوریتیں. لیکن اس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ رمز نے کہا . بولے . دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتح قوتوں یعنی برطانیہ ، فرانس ، امریکا اور سوویت یونین نے جرمنی کو چار حصّوں کی عملداری میں تقسیم کر دیا تھا . اور یوں مغربی جرمنی مغربی ممالک اور مشرقی جرمنی سوویت یونین کے قبضے میں آیے . برلن اگرچہ مشرقی حصے میں تھا لیکن دارلحکومت ہونے کے ناطے اس کی بھی تقسیم ہوئی . ابتدا میں منصوبہ تو یہ تھا کہ بالآخر دونوں حصے متحد ہوکر ایک ملک بن جایں گے لیکن سرد جنگ کے سیاسی تناؤ کی وجہ سے کئی سالوں تک ایسا نہ ہو سکا . دیوارکی تعمیر سے پہلے تقریبآ پینتیس لاکھ افراد مشرقی برلن سے فرار ہو کر مغربی جرمنی پوھنچے تھے .  کمیونسٹ حکومت کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس طرح نہ صرف ان کی بدنامی ہو رہی ہے  بلکہ معیشت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے . لوگوں کے فرار ہونے کی وجہ ؟ صوفی نے پوچھا . بولے . کمزور معیشت ، بے روزگاری ،  انسانی حقوق کو کچلتے سخت قوانین اور آزادی اظہارکا نہ ہونا بنیادی وجوہات تھیں. انیس سو اکسٹھ میں تو یہ صرف ایک خاردار باڑھ تھی پھر اسے باقاعدہ فوجی سرحدی دیوار میں تبدیل کر دیا گیا جس پر حفاظتی چوکیاں قائم تھیں. کمیونسٹ اسے فاشسٹ قوّتوں سے بچاؤ کی دیوار کہتے تھے اور مغرب کے لوگ دیوار پشیمانی . دیوار کی تعمیر کے بعد بھی کوئی پانچ ہزار افراد یہ دیوار پھلانگ کر مغربی جرمنی کو فرار ہوے . محافظوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا اختیار تھا.  تقریبا دو سو لوگ اس کوشش میں مارے بھی گئے . ڈیفکٹرز کے لئے  مغربی جرمنی میں داخل ہونے کا سب سے آسان راستہ برلن شہر ہی تھا کیونکے دیوار عبور کرتے ہی وہ مغربی قوتوں کی عملداری میں ہوتے تھے۔ پھر کمیونسٹ حکومت اس دیوار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ میں نے کہا . بولے. اسی کی دہائی کے آخر میں کمیونسٹ ممالک خاص طور پر سوویت یونین معاشی اعتبار سے کمزور ہوا تو اس کی گرفت مشرقی جرمنی پر کمزور ہوتی چلی گئی. ادھر جرمنی کے الحاق کا عوامی مطالبہ دن بدن زور پکڑ رہا تھا اور صدر ریگن نے بھی گورباچوف سے یہی مطالبہ اپنی تقریر میں کیا .  بلآخر کمیونسٹ حکومت کو عوامی رائے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے . لوگوں کو آزادانہ برلن شہر کے دونوں حصّوں میں آنے جانے کی آزادی مل گئی .  تین اکتوبر انیس سو نوے کو مشرقی اور مغربی جرمنی ایک متحدہ ملک بن گئے اور یوں دنیا میں سرد جنگ کا خاتمہ ہوا….. جاری ے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *