Skip to content
Home » Blog » کیمپ دو ہزار تیس ، وادی گم ، انشے سیریل ، اٹھایسویں اور آخری قسط Camp 2030, Bygone Valley, The Last Episode 28

کیمپ دو ہزار تیس ، وادی گم ، انشے سیریل ، اٹھایسویں اور آخری قسط Camp 2030, Bygone Valley, The Last Episode 28

The final Episode 28 of Bygone Valley, short story (Urdu/Hindi Inshay) pod cast serial, covers the period of human civilization from 2015 AD to 2030 AD when our present day world will evolve into a new world.  A world in which riding unmanned cars will be possible, nano technology will provide materials to build tracks on which lifts can take us up and down to space, when walls and tables and other flat surfaces will be alive with internet. Our data will be on our fingertips and use of virtual reality for communication using internet goggles and contact lenses will become a reality .  Our wash room surfaces will be designed to analyze our biochemistry and genes to advise us on diet and disease prevention. Bygone valley covers history of  22,000 years of human civilization until the modern times in a fictional metaphor story form.

In order to listen, read and enjoy all episodes, please visit Valueversity channel on YouTube, Audioboom or visit  www.valueversity.com

Written and narrated by

Shariq Ali

کیمپ دو ہزار تیس ، وادی گم ، انشے سیریل ، اٹھایسویں اور آخری قسط
یہ امروز کیمپ میں ہمارے قیام کی آخری رات تھی. صبح کاذب سے دو گھنٹے پہلے ہی  ہمیں آیندہ کی چوٹی کی سمت اگلے کیمپ دو ہزار تیس  کی جانب  روانہ ہونا تھا . میں، ابو آدم ، اوزگر، ڈیوڈ ، سونگ ، بہادر غرض یہ کے سب ہی کوہ پیما اپنے اپنے کاندھوں پر اپنا سامان اٹھاے اگلے سفر کے لئے تیار تھے. آرکی نے ہم سب کو نظر بھر کر دیکھا اور پھر اپنا رخ وادی گم کی طرف کر لیا .  اس کی آوازوادی میں گونج اٹھی .  دوستو وادی گم کی کہانی ہماری شناخت کا تعارف ہے . یہ ہماری موجودہ دنیا کے خد و خال کی وضاحت میں مدگاربھی ہے اور مستقبل کی سمت میں سفر کے لئے ہماری رہنما بھی . یہ ہمیں احساس  دلاتی  ہے کہ  ہم سب ایک ہی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ہے نسل انسانی. اس  کہانی میں ہمارا ماضی بھی ایک ہے اور ہمارا مستقبل بھی . وہ ایک لمحے کو رکا ار پھر بولا . دوستو  ہمارا اگلا پڑاؤ کیمپ دو ہزار تیس ہے . جہاں  کارہیں اور بسیں خودکار ہوں گی ، کسی  ڈرائیور کے بغیر اور حادثے سے بہت زیادہ  محفوظ .  غسل خانوں میں وژن کی مشین کی طرح وہ  سطح بھی  موجود ہو گی جس پر قدم رکھتے ہی جسم کی نمکیات، خون کا دوران غرض یہ کہ صحت سے متعلق ساری تفصیل اورغذائی اور طبی مشورے  دستیاب ہوسکیں گے. جراحت اور دواؤں کی دنیا جنیاتی معلومات کے سہارے ایک ایسے انقلاب سے دو چارہو گی کے آج کا طریقہ علاج محض ماضی کا قصّہ  بن کر رہ  جاے گا. خود ہمارے ہی  جسم کے چند خلیوں کو لے کر دل، گردے اور پھیپڑے وغیرہ بنانا ممکن ہوجاے گا اور  حسب ضرورت انہیں تبدیل کیاجا سکے گا . نانو ٹیکنالوجی ایسی مضبوط اور باریک پٹریاں مہیا کر دے  گی کے جن پر چلنے والی لفٹ میں بیٹھ کر خلا کی بلندی تک آنا جانا ممکن ہوسکے گا . ریل گاڑیاں بال جیسی باریک پٹریوں پر تیز رفتار سفر کر سکیں گی . مریخ پر پہلی انسانی بستی کا قیام اور خلا میں چھٹیاں گزارنا  ممکن ہوجاے گا . وہاں پوھونچ کر ہم سب انٹرنیٹ چشمے یا کنٹیکٹ لینز پہن کر زبانوں اور معاشرت کے فرق کو با آسانی عبور کر کے آپس میں بات چیت کر سکیں گے . ہمارا ذاتی ڈیٹا، ہماری تمام فائلیں، ہماری انگلیوں کی پور میں ہمارے ساتھ ساتھ  سفرکرسکیں گی .  ہر دیوار، ہر میز اور ہر ہموار سطح انٹرنیٹ سے آراستہ اور جاگ رہی ہو گی . ہمارے خیال اور انگلیوں کے اشارے کی منتظر. ،ہمارے پیغام ہماری آرزوں کی منزل کی جانب رواں دواں ہوں گے . ایک دوسرے کو چھونا، ایک دوسرے کی مدد کرنا ، ایک دوسرے سے محبت کرنا آسان ہو جاے گا . ایک دوسرے کا احترام کرنا ممکن ہو سکے گا  . آئندہ کی چوٹی نامعلوم بادلوں کے پیچھے سہی ، اگر ہم زاد رہ میں انصاف اور سچائی اور سب سے بڑھ کر محبت اپنے دلوں میں اپنے  ساتھ رکھیں توپھر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی خطرہ . آرکی نے رخ موڑا اور آیندہ کی چوٹی کی سمت پر عزم نگاہ ڈالی اور عمودی چڑھائی کی جانب پر اعتماد قدم بڑھا دیے . ہم سب بھی اپنا اپنا  زا د راہ اٹھاے آئندہ کی چوٹی کی سمت چل دیے —- اختتام

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *