Skip to content
Home » Blog » سرنگا پٹم کا شیر ، سامراج ، انشے سیریل ، آٹھواں انشا Tipu Sultan, IMPERIALISM, INSHAY SERIAL, 8TH EPISODE

سرنگا پٹم کا شیر ، سامراج ، انشے سیریل ، آٹھواں انشا Tipu Sultan, IMPERIALISM, INSHAY SERIAL, 8TH EPISODE

The Tiger of Mysore, Tipu resisted the East India Company’s conquest of southern India. He will be remembered as the freedom fighter against British imperialismhttps://youtu.be/V7V9GlPO1ZA

سرنگا پٹم کا شیر ، سامراج ، انشے سیریل ، آٹھواں انشا، شارق علی ، ویلیوورسٹی
اپنے جرنیل کی شہادت کی جھوٹی خبر سن کر ٹیپو مٹھی بھر محافظوں سمیت قلعے سے باہر نکل آیا اور انگریزوں پرخود فائرنگ شروع کر دی.  پھر دست بدست جنگ میں تلوار کے وار سے کئی دشمن سپاہیوں کو جہنم رسید کیا . غداروں  نے منصوبے کے مطابق قلعے کا دروازہ بند کر دیا تاکے وہ  دوبارہ قلعے میں داخل نہ ہو سکے میر صادق پہلے ہی شہر کی فصیل میں شگاف ڈلوا کر اور تنخواہ کی تقسیم کے بہانے حفاظتی دستوں کو شگاف سے ہٹا کر انگریزوں کو  شہر میں داخل کروا چکا تھا . نیند مجھ سے بہت دور تھی اور ٹیپو کی زندگی کی ویڈیو کے مناظر آنکھوں کے سامنے تھے.   شکست قریب دیکھ کر ٹیپو کے ایک محافظ نے کہا . سلطان دشمنوں کو بتا دیجیے کے آپ کون ہیں وہ آپ کو با عزت قید کر لیں گے . ٹیپو کا جواب آج بھی ایک تاریخی للکار ہے ، شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے .  اس کا جسم پے در پے گولیوں سے زخمی ہوا تو وہ گر پڑا . ایک لالچی انگریز ہیروں جڑی کمر کی پیٹی اتارنے آگے بڑھا تو ٹیپو نے تلوار کے کاری وار سے اس کی ٹانگ جسم سے علحدہ کر دی . پھر اسے بے حد قریب سے سر میں گولی ماری گئی اور وہ شہید ہو گیا . سترہ سو ستاون میں پلاسی کی جنگ جیتنے کے بعد برطانوی سامراج کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ سرنگا پٹم  کے شیر ٹیپو کی لاش کو  دیکھ کر  سترہ سو ننانوے میں انگریز اہلکار نے کہا تھا  اب ہمیں ہندوستان پر قبضے سے کوئی نہیں روک سکتا .  میں نے کروٹ بدلی لیکن پھر وہی خیالوں کا تسلسل  . میسور کے باغی سپاہ سالار حیدر علی کا بہادر بیٹا ٹیپو جس نے دس سال کی عمر میں اونچے میناری قید خانے کی سلاخیں کاٹ کر چھوٹے بھائی کو کاندھے پر لادے رسیوں سے نیچے اتر کر اور حمایتیوں کے دیوالی کے رنگوں میں دونوں بچوں کو رنگ دینے  اور شیر کا ماسک پہنے فرار ہو کر باپ سے جا ملنے کا کارنامہ انجام دیا تھا .  اس فرار کے ایک سال بعد حیدر علی میسور کا حکمران بن گیا تھا. رات بھر بے چین رہا اور مشکل سے نیند آئ . صبح یونیورسٹی کے کوریڈور میں پروف کو بے خوابی کا احوال سنایا تو بولے . میسور ان دنوں ایک بڑی ریاست تھی جسے مصالحہ جات کی پیداوار اور کپڑے کی صنعت نے بے حد دولت مند بنا دیا تھا.  یہاں شہریوں کی آمدنی ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے پانچ گناہ زیادہ تھی. تین طرف دشمن تھے یعنی انگریز ، نظام دکن اور مرہٹے  اور چوتھی سمت سمندر . انگریز سے میسور کی مسلسل جنگوں کا سلسلہ تیس سال تک جاری رہا . حیدر علی ایسی ہی ایک جنگ میں شہید ہوا تو سترہ سو بیاسی میں ٹیپو تخت پر بیٹھا.  اس کی زندگی بھی مسلسل جنگ میں گزری . صلح کے معا ہدے بھی ہوے لیکن دشمنوں کی نظر ریاست کی دولت پر تھی. ایسے میں ٹیپو نے ایک بڑی جنگی غلطی کی . ایک جنگ میں انگریزوں پر فیصلہ کن جیت کے بعد ٹیپو  نے ان کا مدراس تک پیچھا کر کے مکمل صفایا نہ کیا بلکے انھیں فرار ہونے دیا . اگر وہ مدراس فتح کر لیتا تو  آج ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی. انگریز ٹیپو سے خوفزدہ تھے . انہوں  نے نظام دکن ، مرہٹوں اور اندرونی غداروں کو اپنے ساتھ ملایا.  ان دنوں ہندوستان کسی نظریاتی وحدت سے عاری تھا. غداروں کے لئے وفاداریاں تبدیل کر لینا اور نئی ریاستوں کا قیام عام سی بات تھی . ٹیپو ایک بہادر جرنیل تھا لیکن وہ درباریوں کو خوش کرنا نہ جانتا تھا. اس کی اولاد میں کوئی قابل جانشین بھی نہیں تھا.  ریاست کے مستقبل کی بے یقینی نے میر صادق جیسے کئی غدّار پیدا کیے . کامن روم میں سوفی بھی گفتگو میں شریک ہو کر بولی . کچھ جنگیں تو انگریز بھی جیتے ہوں گے ؟ بولے . بالکل . ایک ہار تو ٹیپو کو انگریز اور اتحادیوں سے جنگ ہار کر کر آدھی سلطنت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا .  ان دنوں اس پر بدلے کا جنون طاری ہو گیا تھا . اس نےقسم کھائی تھی کہ وہ جب تک انگریزوں کو ہرا نہیں لیتا بستر پر نہیں سوئے گا اور وہ مستقل فرش پر سوتا رہا.  اس نے ایک گھڑی بنوائی جس میں ایک شیر ایک برطانوی فوجی کا گلا دبوچ رہا ہے.  یہ گھڑی آج بھی لندن میوزیم میں ٹیپو کی یادگاروں میں محفوظ ہے.  وہ اس گھڑی کو دیکھ کر انگریز سے بدلے کے منصوبے بناتا رہتا تھا.  اور  آخری معرکہ ؟ میں  نے پوچھا . بولے . ٹیپو کی آخری جنگ میں شکست کی وجہ مقامی غدّار تھے .  کئی موقعوں پر انگریز فوج ٹیپو کے فوجی دستوں کی زد میں ائی لیکن غدّار سپہ سالار جو انگریزوں سے مل چکے تھے حملے کا حکم دینے سے گریز کرتے رہے اور سپاہیوں کے پوچھنے پر کہتے کے یہ ٹیپو  ہی کی حکمت عملی ہے . وہ جان بوجھ کر اپنے دستوں کو انگریز توپوں کی زد میں لا کر بھاری جانی نقصان کرواتے . بلآخر یہ غداری سپاہیوں پر ظاہر ہو گئی اور  انہوں نے میر صادق اور دیگر غداروں کو قتل کر دیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی.  انگریز  شہر پر قبضہ کر چکے تھے اور ٹیپو شہید ہو چکا تھا . عوامی حمایت دیکھتے ہوے  ٹیپو کو انگریزوں نے پورے اعزاز کے ساتھ توپوں کی سلامی سمیت سرنگا پٹم میں دفن کیا . آج بھی کیا ہندو کیا مسلمان سب اپنے ہیرو کو حاضری دینے آتے ہیں —- جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *