Skip to content
Home » Blog » دانش چین، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، بائسواں انشا Chinese Wisdom, Grandpa & me. Urdu/Hindi Pod cast serial. Episode 22

دانش چین، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، بائسواں انشا Chinese Wisdom, Grandpa & me. Urdu/Hindi Pod cast serial. Episode 22

This story is about Confucius, a Chinese teacher and philosopher who influenced China and to some extent the entire world from 200 BC till now.

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

دانش چین،  دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، شارق علی
جنگل سے گزرتا ہوا نزدیک ترین راستہ خاصا تنگ تھا.ہمارے دونوں جانب درختوں کی ٹنڈ منڈ شاخیں تھیں اور پیروں تلے سوکھے زرد پتے. بابل راستے سے واقف تھا اور سب سے آگے. پھر فیروزی جوگر، نیلی جینس. میرون ٹاپ اور پونی ٹیل میں فیروزی میچنگ کلپ لگاے یا نی آپا. سب سے پیچھے میں. ہماری منزل جھیل کا وہ کنارہ تھا جہاں دادا جی اور انکل صبح ہی سے  فشنگ میں مصروف تھے. بابل تو آپ کو یاد ہی ہو گا. پھول بن میں میرا گہرا دوست جو کھیتوں میں اپنے باپ کی مدد کرتا ہے. پھول بن  پہنچنے پر یا نی آپا کی بابل سے فوری دوستی مجھے اچھی لگی تھی. پھر بھی جب وہ اسے مجھ سے تیز تیرنے یا درختوں پر تیزی سے چڑھ  جانے پر تعریفی نظروں سے دیکھتیں ہیں تو مجھے سینے پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے. جنگلی راستہ کشادہ ہوا تو ہم ساتھ ساتھ چلنے لگے. یا نی آپا نے بابل سے کہا. پڑھنے لکھنے کا شوق غربت کو ہرا  سکتا ہے. ٥٥١ ق م میں چین میں پیدا ہو کر تین سال کی عمر میں یتیم ہو جانے والے غریب کنفیوشس کی کہانی اس کی بہترین مثال ہے. ان دنوں باقاعدہ تعلیم صرف امیروں کو میسر تھی. اس غریب چرواہے نے تعلیم یافتہ امیروں کی ملازمت کر کے، ان کے ساتھ شہروں شہروں گھوم کر اور شاہی دربار تک رسائی میں شریک هو کر خود کو تعلیم سے آراستہ کیا تھا. وہ پہلے منشی بنا اور پھر ممتاز عالم . تیئس سال کی عمر میں اس نے استاد کی حیثیت سے تعلیم دینا شروع کی. پھر وہ شہر کا قاضی مقرر ہوا. جرائم کم ہوے تو اسے قدیم چین کے صوبے لو کا وزیرانصاف بنا دیا گیا  اور یوں پورے صوبے میں اخلاقی قدروں اور قانون کی بالادستی قائم ہوئی.چھپن سال کی عمر میں اپنے شاگردوں کے ساتھ وہ تعلیم دینے دور دراز علاقوں کے سفر پر روانہ ہوا. چین کی ثقافت پر اس کے اثرات ٢٠٠ ق م  سے لے کر ١٩١١ ص ع  تک بہت گہرے ہیں.  ہم جھیل کے کنارے پھنچے تو دادا جی بھی فشنگ راڈ زمین پر گاڑھ  کر ہمارے پاس گھاس پر آ بیٹھے اور بولے. کنفیوشس نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی لیکن اس کے شاگردوں نے اس کی تعلیمات انالیکٹکس کی صورت میں چار سو قبل مسیح  ہی میں محفوظ کر لیں تھیں. اس نے کبھی مذہبی رہنما ہونے کا دعوه نہیں کیا. نہ ہی اس کی تعلیمات کوئی مذہب ہیں. وہ با عزت اور پر وقار انسانی رویئے کو با کردار معاشرے کی بنیاد قرار دیتا ہے. وہ کہتا ہے کہ حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ عوام کے لئے دیانتداری، قانون کی پابندی، امن پسندی اور دانشمندی کی مثال بن کر بہتر معاشرے کی تشکیل کریں. وہ نظم و ضبط اور اخلاقی اصولوں پر سختی سے کاربند ہونا ضروری سمجھتا ہے چاہے لوگ ہمیں احمق ہی کیوں نہ سمجھیں. موجودہ دنیا کی سیاست، نظام حکومت، مذہب اور ثقافت میں کنفیوشس کی تعلیمات کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائی دیتا ہے. اس کا سنہری اصول یہ تھا کے وہی  حسن سلوک اختیار کرو جس کی تمہیں توقع ہے. وہ بہتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا………جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *