Skip to content
Home » Blog » خودشناسی ، مقصدیت سے جڑیے ، بیان مقصد لکھیے ، انشے ورکشاپ، چھٹا انشا Self awareness, POWER OF PURPOSE, INSHAY SERIAL WORKSHOP, PART 6

خودشناسی ، مقصدیت سے جڑیے ، بیان مقصد لکھیے ، انشے ورکشاپ، چھٹا انشا Self awareness, POWER OF PURPOSE, INSHAY SERIAL WORKSHOP, PART 6

Join the power of purpose. This inshay serial workshop is designed to help you write a personal mission statement containing purpose, direction, and priorities in your life

کیا ہم زندگی کی مقصدیت سے جڑنا چاہتے ہیں؟  اگر ہاں تو یہ انشے سیریل ورکشاپ بیان مقصد یا مشن سٹیٹمنٹ لکھنے میں مددگار ہو گی. یعنی ایک ایسی ذاتی تحریر جس میں ہم اپنی زندگی کے مقصد ، اپنے سفر کی سمت  اور زندگی میں کیا اہم ہے اور کیا نہیں کی سادہ لفظوں میں وضاحت کر سکتے ہیں ، اسے سمجھ سکتے ہیں
خودشناسی ، مقصدیت سے جڑیے ، بیان مقصد لکھیے ، انشے ورکشاپ، چھٹا انشا ، شارق علی
اور ہوتا یوں ہے کہ خود آگاہی ہی ہمیں وہ ہمت فراہم کرتی ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر ہم اپنی زندگی کی ذمہ داریوں کو کامیابی سے ادا کرسکنے کے قابل ہوتے ہیں۔ میں جب اس انشے ورکشاپ کے حوالے سے آپ سے مخاطب ہوں تو میرا مقصد آپ کو خود شناسی سے متعارف کرنا ہے۔ یہ صرف جھنجھوڑنے کی کوشش ہے۔ جاگنا تو خود آپ کو ہے۔ جھنجھوڑنے کا عمل وقتی طور پرناگوار بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک خوشگوار دن گزارنے کا بھرپور آغاز بھی۔ سبھی لوگوں کی طرح میں اپنی زندگی میں مایوسیوں اور ناکامیوں سے دوچار بھی ہوا ہوں اور حقائق نے مجھے جھنجھوڑا بھی ہے۔ اور اس جھنجھوڑنے کے عمل نے مجھے اپنی منفی طرز فکر کی جانب متوجہ کیا. پھر اسی منفی طرزِ فکر کا دیانت دارانہ تجزیہ میری مدد کو آگے بڑھا ہے۔اور ایک بھرپور اور پرمسرت زندگی بسر کرنے کے امکان کاتعارف ثابت ہوا ہے، عین اُس لمحے جب اس بات کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ منفی طرزِ فکر سے جنم لینے والی ایک مشکل ایک اور بڑی مشکل کو جنم دے۔ قدرت ہم سے اس جھنجھوڑنے کے عمل کے ذریعے سے مخاطب ہوتی ہے۔ اور نہ جانے کیوں یہ فیاضی اس موقع پر ہوتی ہے کہ جب ہم مسائل اور مصائب میں گھرے ہوے ہوں۔ اور مایوسی کی دلدل کے قریب پہنچ چکے ہوں۔ میں آج اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں۔ کہ انسان کی ترقی اور تنزلی، کامیابی اور ناکامی، مسرت اور مایوسی اس کی سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے اس کے طرزِ فکر سے جنم لیتی ہے۔ ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ہم کس بات پر یقین رکھتے ہیں اور ہم کیا کچھ کرسکنے کے قابل ہیں۔اور یہ سوچیں اور یہ طرزِ فکر ہمارے عمل کی سمت کو متعین کرتاہے، ہمارے رویے کو تشکیل دیتا ہے اور ہم اس رویے کے نتیجے میں اپنی زندگی میں ایسی صورتِ حال پیدا کر لیتے ہیں ایسے حالات کو تشکیل دیتے ہیں کہ جو ہماری کامیابی اور ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔ میں یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے بیشتر لوگ اس کڑوے سچ کو نگلنے میں مشکل محسوس کریں گے کہ ہم آج جو کچھ بھی ہیں اس کی ساری ذمہ داری ہم ہی پر عائد ہوتی ہے۔ میں اپنے طالبِ علموں سے گفتگو کے دوران اس بات کو ذہن نشین کرانے میں خاصی مخالفت کا سامنا کرتاہوں اور لوگوں کے لیے اس سچ کو قابلِ قبول بنانا خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم انسانوں کے لیے اس سے بڑا کوئی چیلنج نہیں کہ ہم اپنی زندگی کی ذمہ داری کو بلا حجت و تاویل مکمل طور پر اپنا سکیں۔ ذمہ داری صرف اس بات کی نہیں کہ ہم کیا ہیں؟ بلکہ اس بات کی بھی کہ ہم کیا کچھ ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کسی بھی شخص کے لیے اگر وہ مکمل طور پر آزاد ہونا چاہے اور آج کی اس تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دُنیا میں محوِ پرواز ہونا چاہے کامیابی اور سرخوشی کے ساتھ،  تو سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کی ذمہ داری کو مکمل طور پر قبول کریں۔ہم تیزی سے حقائق کے انکار اور پھر مخالفت کے تکلیف دہ عمل سے آگے بڑھیں اور سچ کے لیے قبولیت اختیار کریں۔ اور یہ وہ نقطۂ آغاز ہے کہ جہاں سے ایک ترو تازہ سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ آپ زندگی کے کس موڑ پر ہیں۔ آپ طالبِ علم ہیں یا آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ہے یا آپ اپنی عملی زندگی کے درمیان میں ہیں، اپنی خاندانی اور گھریلو ذمہ داریوں کے بیچوں بیچ ہیں یا ان ذمہ داریوں اور عملی جدوجہد سے فراغت پاکر فرصت آمیز لمحے گزار رہے ہیں۔ آپ اس ترو تازہ سفر کا آغاز آج کے اس لمحے سے کر سکتے ہیں۔ اگر آپ زندہ ہیں تو نادانستہ طور پر آپ کا جسم حیاتیاتی نشوونما کے مستقل عمل کے ذریعے سے اس ترو تازہ سفر کو اختیار کیے ہوئے ہے۔بالکل اسی طرح آپ اپنے ذہن کو، اپنے طرزِ فکر کو اس تر و تازہ سفر میں شریک کرسکتے ہیں۔ منفی اور ساکت سوچوں کے بجائے مثبت، پُراُمید اور نئے طرزِ فکر کے ساتھ آرزومندی کے ایک نئے سفر پر روانہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ سفر کیسا ہی کیوں نہ ہو اس کے لیے قوتِ ارادی اور محنت درکار ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کے ہم مزید آگے بڑھیں آئیے ہم عملی مشق کا دوسرا قدم اٹھائیں . اس کا عنوان ہے اپنی اقدار کو پہچانئے.  اپنی نوٹ بُک میں اپنے لئے اہم اقدار یا ویلیوز کا اندارج ترتیب وار کیجئے ۔ مثلاً آپ کی صحت، آپ کا خاندان، آپ کا سرمایہ ، آپ کے خواب، گھر، گاڑی غرض یہ کہ آپ جتنی لمبی فہرست بنانا چاہیں بنا لیں۔ پھر اُن سب پر غور و فکر کے بعد صرف پانچ اقدار کی فہرست بنائیں جو آپ کے لئے بے حد اہم ہیں . آخر میں مزید سوچ بچار کے بعد صرف ایک ایسی قدر کی نشان دہی کیجیے جو آپ کے لئے زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہے ۔ اس ساری سوچ و بچار کے دوران آپ خود آگاہی کے خاموش سفر سے گزریں گے —- جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *