Skip to content
Home » Blog » تنقیدی سوچ ، فکر انگیز انشے Critical thinking, Thought-provoking Inshay

تنقیدی سوچ ، فکر انگیز انشے Critical thinking, Thought-provoking Inshay

Critical thinking is an essential prerequisite for intellectual freedom. How can we teach this important topic to our kids and students? Here are few suggestions

تنقیدی سوچ ، فکر انگیز انشے ، شارق علی
 تنقیدی سوچ زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس سے مراد ہے معلومات کا بغور معائنہ اور تجزیہ کرنا۔ زندگی میں معلومات چاہے ہمیں اپنے مشاہدے، تجربے یا کسی رابطے کی صورت میں حاصل ہوئی ہوں،  اہم بات یہ ہے کہ ہم معلومات کو من و عن تسلیم کرنے کے بجائے اس پر تنقیدی نظر ڈال سکیں۔ اس معلومات کے حوالے سے جائز اور مناسب سوالات اُٹھا سکیں۔  سائنس، ریاضی، تاریخ، معیشت اور فلسفہ تنقیدی سوچ کے بغیر اپنا وجود حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ کسی بھی سماج کی ترقی کے لیے اس کے شہریوں میں ایسی سوچ کاہونا بے حد ضروری ہے۔  چاہے آپ والدین ہوں یا اُستاد،  اپنے بچوں کو اور اپنے طالب علموں کو تنقیدی سوچ دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ بچے اپنے مشاہدے کے حوالے سے اکثر اپنے سوالات کا آغاز ’’کیوں‘‘ سے کرتے ہیں۔  ایسے ہر سوال کا جواب تمہارا کیا خیال ہے؟ سے شروع کرنے سے ہم اُن کے ذہن میں تنقیدی سوچ کا بیج بو سکتے ہیں۔ ہر مشاہدے کے بارے میں انھیں اپنی ذاتی رائے قائم کرنے سے عملی زندگی میں بے حد مدد ملے گی۔ مشاہدات کا موازنہ کرنا یا ضدین (متضاد) تلاش کرنا نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ فکر انگیز بھی۔ مثلا کسی بچے کو اگر ایک سیب اور ایک سنگترہ دیا جاے اور اس  سے کہا جاے کہ دونوں میں کیا بات مشترک ہے اور کیا مختلف ؟ تو یہ بات اس کی ذہنی کشادگی میں بہت مددگار ہوگی۔ بچے جب کہانی سُنتے ہیں تو وہ کرداروں، ماحول، کہانی کے بنیادی پلاٹ اور چھو ٹی چھوٹی جزئیات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور دیگر سنی ہوئی کہانیوں سے اُس کا موازنہ اُن کے مشاہدے کو اور وسیع کرتا ہے۔ اگر بچے سے کہا جائے کہ وہ سُنی ہوئی کہانی اپنے الفاظ میں دوبارہ سنائیں اور اُن سے کچھ ایسے سوال کیے جائیں جن کا جواب اس کہانی میں موجود نہیں تو اس طرح اُن کا ذہن سوچنے پر مجبور ہوگا.  پھر اگر کہانی اور اس کے کرداروں کے بارے میں خود اُن کی رائے معلوم کی جائے تو وہ اپنے انفرادی خیال کے اظہار سے تنقیدی سوچ حاصل کریں گے۔  ہوسکتا ہے وہ اس کہانی کا موازنہ اپنی زندگی سے کریں، ہوسکتا ہے وہ پرانی معلومات کو نئے انداز سے عملی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنے بچوں اور اپنے طلبا کے ساتھ مل جل کر کسی مسئلے کا حل تلاش کرنا یا مختلف صورتحال کا موازنہ کرنا،  بہتر سے بہتر نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرنا، نہ صرف ان میں بلکہ آپ میں بھی تنقیدی سوچ بیدار کرے گی ۔ ایسی کہانیاں جن کا کوئی انجام نہ ہو یا بہت سے انجام ممکن ہوں۔ پڑھنے والے بچے کی تخلیقی صلاحیت پر  مثبت طور پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ انسانی تاریخ میں تنقیدی سوچ کی اہمیت کی سمت متوجہ کرنے والا سب سے پہلا شخص سقراط تھا۔ اس کا راستہ دانشمندانہ سوالات کا راستہ تھا۔  اس کے سوالات سوچنے والے ذہن کو دو مختلف سمتوں بلکہ بعض اوقات کئی مختلف سمتوں میں لے جاتے اور پھر اسے ان راستوں پر چل کر خود اپنے لیے جواب تلاش کرنا پڑتا تھا۔ ہم بھی اپنے طالب علموں اور بچوں کو تنقیدی سوچ سکھانے کے لیے یہ طریقہ کار استعمال کرسکتے ہیں۔ کسی تنازعے کا فکری تجزیہ تنقیدی سوچ کو بیدار کرتا ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ ہے اس تنازعے کو پہچاننا، اس کی صاف ستھری وضاحت کرنا، جسے ہم فلسفے کی زبان میں ’’پریمس‘‘ کہتے ہیں یا وہ بیانیہ جس پر ہمیں بحث کرنی ہے.  پھر ہم اس تنازعے کے دونوں پہلوئوں پر دیانت دارانہ غور و فکر کرتے ہیں ۔ دونوں نکتہ نظر پر دلائل کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ بیانیے اور متبادل بیانیے پراپنی توجہ کو بغیر کسی تعصب اور بغیر کسی بیرونی دبائو کے منصفانہ انداز سے جانچتے ہیں۔ مباحثے کے دوران جو معلومات ہمیں فراہم کی گئی ہیں اس کے معتبر ہونے کو یقینی بناتے ہیں۔ خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم معلومات کے منبع یا سورس کی نشاندہی کرسکتے ہیں ؟ کیا وہ منبع قابلِ احترام ہے؟ کیا اُسے اس رائے زنی کے حوالے سے اس موضوع پر مہارت حاصل ہے؟ کیا اس موضوع پر تمام ماہرین کو ئی مشترکہ رائے رکھتے ہیں یا نہیں؟ ایک بات جو تنقیدی سوچ کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم رائے، فیصلے اور حقائق میں تمیز کرسکیں. کیونکہ یہ بات بہت عام ہے کہ زندگی میں بہت سے لوگ رائے زنی اور ذاتی فیصلے صادر کرنے کو حقائق بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں.  اور یہ ہماری تنقیدی سوچ ہی سے ممکن ہے کہ ہم اس بیرونی دبائو کا مقابلہ کرسکیں اور اپنی زندگی میں درست فیصلوں کی طرف بڑھ سکیں۔ اب آپ سے اجازت چاہوں گا۔ اپنا خیال رکھیے گا
ویلیو ورسٹی ، شارق علی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *