Skip to content
Home » Blog » تبدیلی کی قبولیت ، فکر انگیز انشے ، شارق علی Coping With Change, THOUGHT-PROVOKING INSHAY

تبدیلی کی قبولیت ، فکر انگیز انشے ، شارق علی Coping With Change, THOUGHT-PROVOKING INSHAY

Change can be uncomfortable, stressful or even scary. We are scared of the unknown. Thinking through different possible outcomes and deciding what would be the best in a worst-case scenario is one solution. There are many others

تبدیلی کی قبولیت ، فکر انگیز انشے ، شارق علی
تبدیلی قبول کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں .  لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ زندگی مستقل تبدیلی کا سفر ہے. کون جانے کب ہمیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے . وہ جو ہمیں بہت عزیز ہیں نجانے ہم سے کب جدا ہو جائیں.  ہو سکتا ہے ہمیں اپنا وطن یا شہر چھوڑ کر کسی نئے مقام پر آباد ہونا پڑے، یا محض معاشرے میں ہونے والی تبدیلیاں ہمارے لیے بے چینی کا سبب بن جایں . بہتر بات یہ ہو گی کہ ہم ایسی تمام تبدیلیوں سے مثبت انداز سے نمٹ سکیں . تبدیلی قبول کرنے کا پہلا قدم  ہے ’’ ذہنی قبولیت ‘‘. یعنی ہم ذہنی طور پر تبدیلی کے لیے خود کو تیار کریں.  یہ تبھی ممکن ہے جب ہم تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذاتی محسوسات کو تسلیم کریں. ان کا مہذب انداز میں اظہار کریں۔ اگر ہمارا کوئی عزیز ہم سے جدا ہو گیا ہے تو بلا جھجک اس بات کا غم منائیں.  اگر نوکری کے دوران جائز حق سے محروم کر دیا گیا ہے تو غصے اور مایوسی کا اظہا ر با لکل مناسب ہے. لیکن اس اظہار میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔ اگر ہم معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں سے مطمئن نہیں تو اپنے دوستوں سے اور وہ لوگ جن پر ہم اعتماد کرتے ہیں، اپنے خیالات کا برملا اظہار کریں . لیکن ساتھ ہی ساتھ خود کو ذہنی طور پر اس بات پر تیار کریں کہ زندگی تبدیلیوں ہی کا تو نام ہے  ۔پرانا دور اور قدریں کبھی بھی برقرار نہیں رہتیں . ارتقائی عمل زندگی کا لازمی جزو ہے. ہمارا وجود کسی صورت تبدیلیوں سے آزاد نہیں رہ سکتا.  تبدیلیاں ہی نئے امکانات کو جنم دیتی ہیں.  پھر ہر تبدیلی کے تناظر کو سمجھنے کی کوشش کریں  ۔ جذباتی انداز میں نہیں بلکہ مثبت طرز فکر کے ساتھ. ایسا کرنے کے لیے ہم خود سے کچھ سوالات کر سکتے ہیں۔  مثلاً یہ کہ مجھے یہ تبدیلی کیوں پسند نہیں اور یہ بھی کہ اس تبدیلی کہ نتیجے میں وہ کون سی صورت حال ہے جس نے مجھے خوف زدہ کر رکھا ہے ؟  اور کیا یہ خوف حقیقت پسندانہ ہے ؟  پھر اپنی زندگی میں موجود خوشگوار پہلوئوں پر نظر ڈالیے.  کیا اس تبدیلی کے باجود آپ کی زندگی میں اس قدر مثبت پہلو موجود ہیں کہ آپ کو پریشان ہونے کے بجائے زندگی کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ اپنی زندگی میں موجود ہر اچھی بات کوذہن میں رکھیے مثلاً یہ کہ آپ کے پاس سونے کے لیے بسترموجود ہے ، کھانے کے لیے غذا اور دل لبھانے کے لیے سورج ڈوبنے کا حسین منظر ، گرم چائے کا کپ ، کچھ فرصت اور دوستوں سے گفتگو کی آسائش میسر ہے . کسی بھی نعمت کو اپنا حق مت سمجھئے بلکہ شکر گزاری کا رویہ اختیار کیجیے ۔ اس انداز فکر کے ساتھ آپ تبدیلی کے روشن پہلو کی طرف متوجہ ہو سکیں گے . اگر ایک نوکری چھوٹ گئی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ ایک اور بہتر نوکری کی صورت میں نکلے.  اگر کوئی دوست آپ سے جدا ہوا ہے تو ہو سکتا ہے کہ یہ صورت حال آپ دونوں کے لیے بہتر ہو . تبدیلی کے نتیجے میں خود میں پیدا ہونے والی بے چینی کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ ہر تبدیلی ہمیں اپنے اندر دیکھنے کا مواقع فراہم کرتی ہے.  ہو سکتا ہے کہ کسی عزیز کی موت سے پہلے ہم  نے یہ سچ قبول نہ کیا ہو کہ زندگی عارضی ہے.  اور ہمیں دوسروں کے سہارے نہیں خود اپنے سہارے زندگی گزارنا ہوتی ہے. ہو سکتا ہے ہماری جذباتی ناہمواری زندگی کو پوری طرح سمجھنے میں ناکام رہی ہو اور یہ وقت ہے زندگی کے سچ سے آنکھیں چار کرنے کا ۔ ہو سکتا ہے تبدیلی خود آپ سے آپ کا بھر پور تعارف ثابت ہو.  آپ اپنی ذات میں سمجھوتہ کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت سے پہلی بار پوری طرح واقف ہوں۔ آپ یہ دریافت کریں کہ آپ میں صبر اور برداشت کی کس قدر حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے.  ہو سکتا ہے تبدیلی آپ کے لیے ایک نئے سفر، ایک نئی کامیابی کا آغاز ہو.  جب آپ ذہنی طور تبدیلی کو قبول کر لیتے ہیں تو پھر مستقبل کی منصوبہ بندی اور نئے امکانات کی طرف پیش رفت آسان ہو جاتی ہے . اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی دنیا کو بہتر بنانا آپ کی ذمہ داری ہے. یقین رکھیے کہ تبدیلیوں کا مقصد آپ کو اور آپ کی دنیا کو بہتر بنانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔ اب آپ سے اجازت چاہوں گا —— ویلیو ورسٹی ۔۔ شارق علی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *