Skip to content
Home » Blog » تاریخ ساز ، دنیا گر ، انشے سیریل ، ساتواں انشا Apartheid & Mandela,DUNYAGAR, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 7

تاریخ ساز ، دنیا گر ، انشے سیریل ، ساتواں انشا Apartheid & Mandela,DUNYAGAR, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 7

Enjoy the fascinating story of an anti-apartheid revolutionary who became the first black head of state in a fully representative democratic election

تاریخ ساز ،  دنیا گر ، انشے سیریل ، ساتواں انشا ، شارق علی، ویلیوورسٹی
وہ دن یادگار ہی نہیں تاریخ ساز بھی تھا . پروف نے چاے کا کپ اٹھاتے ہوے کہا . کونسا دن ؟ میں نے پوچھا . بولے . ستائیس اپریل انیس سو چورانوے کا روشن دن . بے حد دلکش مسکراہٹ والے ایک سیاہ فام شخص نے دنیا بھر کے ٹی وی سکرین پر پرجوش عوام کی تالیوں اور نعروں میں جنوبی افریقہ کے پہلے نسلی برابری والے الیکشن میں ووٹ ڈالا اور نفرت کی دیوار گرا دی .  اس نسل پرستی کا پس منظر ؟ سوفی گفتگو میں شامل ہوئی. پروف بولے . سولہ سو پچاس میں پہلی بار جب ڈچ مہم جو اور مقامی افریقی کسانوں کا آپس میں رابطہ ہوا تو ان گنت مقامی لوگ ڈچ لوگوں کی لائی ہوئی بیماریوں کا شکار ہو کر وفات پا گئے تھے . بہت سے بے گناہوں کو ان ظالم  حملہ آوروں نے قتل کرڈالا اور اپنا پہلا شہرکیپ ٹاؤن بسایا. مالی لحاظ سے یہ سارا علاقہ بے حد فائدہ مند تھا. اٹھارویں صدی میں بالاخر انگریزوں نے اس خطّے پر قبضہ کرلیا.  اس قبضے کے باوجود بہت سے ڈچ کیپ ٹاؤن ہی میں رہ گئے اور انہوں نے مل کر  یونین آف ساؤتھ افریکا نامی سفید فام نسل پرست حکومت قائم کر لی . اکثریتی مقامی سیاہ فام آبادی  کے مقابلے میں اقلیتی اقتدار برقرار رکھنے کے لیے نسل پرستی پر مبنی نظام حکومت ان کی ضرورت تھا . انیس سو تیرہ میں پہلا نسلی قانون پاس کیا گیا  جس کے تحت مقامی لوگوں کو بعض ملازمتوں کا ملنا نا ممکن قرار دیا گیا . انیس سو اڑتالیس میں سفید فام افریکآنر نیشنل پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اپارتھایڈ کو قانونی اور سیاسی نظام  کے طور پر اپنا لیا. اپارتھایڈ یعنی نسلی بنیاد پر تقسیم . مقصد سیاسی طاقت، مراعات اور وسائل سفید فام اقلیت کے ہاتھ میں رکھنا تھا . مقامی لوگ بھی قبیلوں کی بنیاد پر تقسیم کیے گئے کیونکے سیاسی لحاظ سے مقامی آبادی کو جو واضح  اکثریت میں تھی خود اپنے ہی ملک میں بنیادی حقوق اور وسائل کے استعمال سے زبردستی روکنے کے لئے انھیں متحد نہ ہونے دینا ضروری تھا . نسلی بنیاد پر شناختی کارڈ بنائے گئے. مقامی لوگوں کو بعض جگہوں پر جانے  ، اہم ملازمتوں اور سہولیات پر پابندی ، مختلف نسلوں کی آپس میں شادی کو جرم اور ووٹ کے حق  سے محروم کر دیا گیا.  اس نظام کے خلاف مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں . نیلسن منڈیلا سب سے توانا آواز بن کر ابھرا . کچھ اور تفصیل منڈیلا کی ؟ رمز نے کہا . بولے . انیس سو اٹھارہ میں جنوبی افریقہ کے ایک اعلی نسب قبیلے میں پیدا ہونے اور بہترین تربیت پانے والے کو یونیورسٹی سے قانون کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خوش قسمتی ملی .  طالب علمی کے دور میں اس نے مزاحمتی کارکن کی حیثیت سے جدو جہد کا آغاز کیا. انیس سو چوالیس میں افریکن نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی . یہ ایک منظم سیاسی پارٹی تھی .  جلد ہی اس نے اے این سی کے یوتھ ونگ میں ممتاز مقام حاصل کر لیا .  اس  نے ساتھیوں کو قائل کر لیا کہ انہیں گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ کے نظریےکو اپنا کر جدوجہد جاری رکھنا چاہئے . یعنی تشدد کے بغیر پر امن سیاسی جدوجہد . انیس سو ساٹھ کے عشرے میں اسے گرفتار کر لیا گیا.  ستائیس سالہ جیل کے دوران سفید فام حکومت نے اسے لالچ بھی دیے اور دھمکایا بھی لیکن وہ اپنے اصولوں پر قائم رہا . آزادی اور اپنی قوم سے سچی محبت اس کی طاقت تھی. جیل میں رہتے ہوے بھی وہ سیاسی جدوجہد اور جنوبی افریقہ کے مسئلہ کو عالمی منظر نامے پر زندہ رکھنے میں کامیاب رہا اور ایک عظیم قائد بن کر ابھرا . انیس سو نوے میں عالمی دباؤ کی وجہ سے وہ آزاد ہوا . تمام نسلوں کے مساوی حقوق کے حامی کو انیس سو ترانوے میں امن کا نوبل انعام دیا گیا . آزاد ہونے کے بعد اس کی سیاسی جدوجہد میں بےحد تیزی آگئ.  اس ساری جدوجہد کے دوران کئی بار ایسے مواقع آے جب خانہ جنگی شروع ہوسکتی تھی.  نیلسن منڈیلا کی امن پسند اور ذہین سوچ نے تشدد کو اُبھرنے نہ دیا اور ہونے والی خانہ جنگی ٹل گئی.  بلآخر ظلم کی سیاہ رات  ڈھل گئی اور وہ انیس سو چورانوے میں پر امن ووٹ کی طاقت سےآزاد جنوبی افریقہ کا پہلا صدر بنا .  چھے بچوں اور بیس پوتے پوتیوں کے ساتھ ہنستی مسکراتی خاندانی زندگی گزارنے والا تاریخ ساز قائد ………. جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *