Skip to content
Home » Blog » اردو کا محبتی ، سامراج ، انشے سیریل ، نواں انشا John Gilchrist, The Linguist IMPERIALISM, INSHAY SERIAL, 9TH EPISODE

اردو کا محبتی ، سامراج ، انشے سیریل ، نواں انشا John Gilchrist, The Linguist IMPERIALISM, INSHAY SERIAL, 9TH EPISODE

John Gilchrist and Fort William College will always be remembered in the history of Urdu language for making Urdu the lingua franca of most widely distributed regions of India and Pakistan

اردو کا محبتی ، سامراج ، انشے سیریل ، نواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
ہال بھر چکا تھا . اردو زبان پر پروفیسر آغا کا لیکچر شروع ہوا. کہنے لگے .  سترہ سو انسٹھ میں سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں پیدا ہونے والا اور وہیں تعلیم پانے والا جان گلکرایسٹ بچپن ہی سے زبان و ثقافت میں دلچسپی رکھتا تھا.  سولہ سال کی عمر میں اس نے ویسٹ انڈیز کا سفر کیا تو اس دلچسپی کو مشاہدے کی گہرائی ملی . وہ نائب سرجن کی حیثیت سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہو کر بمبئی پوھنچا . نوکری کے سلسلے میں جب اسے پیدل سفرکر کے فتح گڑھ جانا پڑا تو راستے میں وہ مشرقی ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہو کرگزرا. اسے خاص طور پر اتر پردیش کے دیہی علاقوں کی زبان  اور  ثقافت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا تفصیلی موقع ملا . ایسٹ انڈیا کمپنی میں نوکری سے پہلے اسے بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کی زبان فارسی ہے.  مشاہدے نے اس بات کی تردید کی. اس نے دیکھا کہ زیادہ تر عام لوگ نہ تو فارسی جانتے ہیں نہ ہی عربی یا سنسکرت. بلکہ وہ مقامی  زبان یعنی کھڑی بولی اور برج بھاشا کے بنیادی الفاظ اور صرف و نحو کے اصولوں کی مستحکم بنیاد میں کہیں فارسی ، عربی ، ترکی یا سنسکرت کے الفاظ شامل کر کے رابطے کی صورت نکال لیتے ہیں.  کھڑی بولی دہلی کے مضافات اور یو پی کے بہت بڑے علاقےمیں بولی جاتی تھی جیسے گڑگاؤں،  فریدآباد،  بلندشہر،  پانی پت ، میرٹھ وغیرہ.  جو دوسری زبان بہت مقبول تھی وہ تھی برج پھاشا.  یہ دونوں ہی موجودہ ہندوستانی یعنی اردو اور ہندی کو بنیاد فراہم کرتی ہیں . جان نے عام بول چال کو ہندوستانی زبان کے طور پر شناخت کیا .  گویا صرف و نحو اوربنیادی الفاظ  کھڑی بولی کے اور اگر فارسی ، عربی ، ترکی الفاظ کی آمیزش تو اردو اور سنسکرت کی آمیزش تو ہندی .  اس نے ہندوستانی زبان کے ان دو مختلف دھاروں کی شناخت کی . زبان و ثقافت پر مزید تحقیق کے لئے اس نے پہلے تو ایک سال کی چھٹی لی . پھر یہ ایک سالہ تحقیق کھنچ کر چودہ سال تک پھیل گئی . برسوں کے مشاہدے کے نتیجے میں اس نے پہلی ہندوستانی انگریزی ڈکشنری مرتب کر لی اور پہلی بار ہندوستانی زبان کی گرامر کو کتاب کی صورت میں مرتب کیا.  اس زمانے کے وائسرائے  نے گل کرائسٹ کی ان کوششوں کو بے حد سراہا اور سرکاری طور پر اس کی ڈکشنری چالیس روپے فی کاپی جیسی بڑی رقم کے حساب سے خرید لی تاکہ  نۓ انگریز افسروں کو مقامی زبان سکھائی جا سکے  . چاے کا وقفہ ہوا تو سوفی اور رمز بھی  مرے ساتھ آ بیٹھے . پھر مہمان مقرر پروفیسر دانی نے اپنا مقالہ شروع کیا . بولے . سن اٹھارہ سو میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام ایک ایسی درسگاہ کے طور پر ہوا جس میں انگلستان سے آے ہوے برطانوی افسران کو ہندوستان میں مختلف علاقوں میں پوسٹنگ سے پہلے مقامی زبان و ثقافت سے متعلق تعلیم دی جاتی تھی .جان گلکرایسٹ ہندوستانی زبان کے شعبے کا سربراہ مقرر ہوا اور اسے پندرہ سو روپے ماہوار کی خطیر رقم ملنے لگی . اس نے اس رقم کو ذاتی طور پر استعمال کرنے  کے بجاے دہلی اور یو پی کے دیگر علاقوں سے میر امّن اور دیگر ہندوستانی مصنفین کو نوکریاں دے کر کلکتہ بلوا لیا . جلد ہی تقریبا دو درجن کے قریب ہندوستانی مصنفین نے جو منشی کہلاتے تھے جان کی سربراہی میں فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی زبان کے دو دھاروں یعنی اردو اور ہندی نثر  کے فروغ کے لیے بھرپور کام شروع کر دیا.  پہلے اردو نثر کے لکھنے والوں میں مقفح و مسجع یعنی سجاوٹ کے نام پر مشکل الفاظ کا محض قابلیت جھاڑنے کے لئے بے جا استعمال کا طریقہ مقبول تھا . لیکن جان کی سربراہی میں فورٹ ولیم  کے مصنفین نے سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آ جانے والی زبان میں ترجمے اور طبع زاد کتابیں لکھیں . یہیں بیٹھ کر میر امّن دہلوی نے فارسی کے قصّہ چہار درویش کا باغ و بہار جیسا سلیس اردو ترجمہ کیا.  اس سے پہلے یہ ترجمہ ایک اور مصنف نے اودھ کے نواب کے لئے مقفع و مسجع زبان میں تصنیف کیا تھا جس کا نام تھا نوطرزمرصع.  گویا جان گلکرایسٹ اور فورٹ ولیم کالج اردو نثر میں سہل نگاری کے حوالے سے یاد رکھے جاینگے .  پھر اردو نے سادہ اور دلنشیں انداز کی وجہ سے بیشتر ہندوستان میں مقبولیت حاصل کی اور رابطے کی سب سے بڑی زبان بن گئی .  مزے کی بات یہ کہ اس دور کے چالیس پچاس سال بعد غالب جن کا فورٹ ولیم کالج سے دور کا بھی تعلق  نہ تھا اپنے خطوط میں ایسی سادہ نثر استعمال کرتے ہیں کہ جس کی نظیر نہیں ملتی . گویا اردو زبان کا  سہل نگاری کی طرف آنا اس کا مقدر تھا . بلا شبہ غالب کے خطوط اردو کی سادہ اسلوب نگاری کے نیۓ دور کا آغاز ہیں  —– جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *