Skip to content
Home » Blog » پارک گوئل ، چھٹا انشاء ، بارسلونا ایک جھلک ، انشے سفرنامہ Park Guell, A GLIMPSE OF BARCELONA, INSHAY TRAVELOGUE, EPISODE 6

پارک گوئل ، چھٹا انشاء ، بارسلونا ایک جھلک ، انشے سفرنامہ Park Guell, A GLIMPSE OF BARCELONA, INSHAY TRAVELOGUE, EPISODE 6

A World Heritage Site since 1984, this public park  is composed of gardens and architectonic elements built by Antoni Gaudi in 1900

پارک گوئل ، چھٹا انشاء ، بارسلونا ایک جھلک ، انشے سفرنامہ ، شارق علی
دونوں اطراف خوش نما عمارتیں اور  بائیں ہاتھ پر ایک جدید ہسپتال کے سامنے بنا بے حد دلکش لان . بیس منٹ کی مسلسل  پیدل چڑھای نے ارد گرد کے منظر کی خوش گواری کے باوجود تھکاوٹ پیدا کر دی تھی . فٹ پاتھ ایک ایسکیلیٹر پر جا کر ختم ہوئی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا ورنہ  خود اپنے قدموں مزید عمودی چڑھائی بہت مشکل ہوتی . ہماری منزل پارک گؤیل تھی . ہم آج  کے اس خوشگوار اور روشن ہسپانوی دن میں اسپین  کے دوسرے بڑے شہر کو ذرا اونچائی سے دیکھنا چاہتے تھے. اسپین جو پہلے چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم تھا آج یورپی یونین کا دوسرا بڑا ملک ہے . پوری دنیا میں ہسپانوی زبان چینی کے بعد دوسرے نمبر پربولی جانے والی زبان ہے .  عالمی ادب میں پہلا ناول سولہ سو پانچ میں ہسپانوی زبان ہی میں لکھا گیا تھا . بحرہ روم کے کنارے آباد اس ملک کا موسم بہت معتدل ہے.  سردیوں میں خوب بارشیں اور پورے سال میں تین ہزار گھنٹے سورج چمکتا ہے۔ زرعی پیداوار کے لئے  یہ صورتحال بہت موزوں ہے اور یہاں کی زمین بھی بہت زرخیز ہے .عربوں کی حکمرانی میں منظم نہری نظام کی وجہ سے دوسرا عالمی ذراعتی انقلاب یہیں سے شروع ہوا تھا .  آج بھی عالمی ضرورت کا پچاس فیصد زیتون کا تیل یہیں سے درآمد ہوتا ہے. مذہب کا اثر اتنا زیادہ کے تقریباً پندرہ فیصد آبادی اتوار کے دن چرچ ضرور جاتی ہے . پارک میں پوھنچے تو پیاس شدّت سے محسوس ہوئی. ادھر ادھر کسی اچھے ریستوران کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو مایوسی ہوئی . سنا تھا  کہ دنیا کا سب سے پہلا رستوران جو سترہ سو پچیس میں اسپین میں قائم ہوا آج تک مو جود ہے . وہ یقیناً اس پاس تو نہیں تھا ، مجبوراً  ایک بڑے سے درخت کے تنے سے ٹیک لگاے اور ٹھیلے سے خریدے مشروب ہاتھ میں تھامے ہم دور تلک پھیلے شہر اور سمندر کے نظارے سے لطف اندوز ہوتے رہے . خاصی بلند پہاڑی پر واقع یہ پارک سن انیس سو میں ایک رہائشی پروجیکٹ کے طور پر انٹونی گاوڈی  کی زیر نگرانی شروع ہوا اور  انیس سو چھبیس میں اسے  پبلک پارک کا درجہ دے دیا گیا. انیس سو چوراسی میں یونیسکو  نے اسے ماڈرنسٹ آرکیٹیکچر کی علامت کے طور پر عالمی ورثہ کا درجہ دے کر محفوظ کر لیا . سب سے منفرد بات یہ نظر آئ کہ کہیں کہیں پہاڑوں کو کاٹ کر مجسمہ سازی کے سے انداز میں ستونوں کو کچھ اس طرح سے صورت دی گئی تھی کے وہ زمین سے اگے کھجور کے درختوں جیسے لگتے تھے  . اونچائی پر ہونے کی وجہ سے پارک گوئل کو  شہر کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ صحت افزا مقام سمجھا جاتا ہے ۔  اس پارک میں ساٹھ مکانوں کی تعمیر کا منصوبہ تھا جنھیں  پیچیدہ راستوں اور تراشی ہوئی سیڑھیوں کی مدد سے ایک دوسرے سے ملایا گیا تھا .  پہاڑی مقام ہونے کی وجہ سے اس کام میں بہت سی رکاوٹیں موجود تھیں لیکن گاوڈی کے کمال فن نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا ، سارا پروجیکٹ اس طرح تعمیر کیا گیا تھا کہ نہ تو سورج کی روشنی میں کوئی رکاوٹ ہو اور نہ ہی نیچے  شہر اور سمندرکے نظر آتے خوبصورت مناظر نظروں سے اوجھل ہوں .  مرکزی دروازے کی سمت واپسی پر ہماری راے کچھ یہ تھی  کے  پہاڑی اونچائی سے شہر اور سمندر کے نظارے تو بے حد دلفریب ہیں لیکن وسیع علاقے پر پھیلا گاوڈی کا یہ تعمیراتی شاہکار کچھ زیادہ متاثر کن نہیں .  شاید اس لئے کہ ہم سمجھے تھے کہ یہ ایک سرسبزوشاداب باغ ہو گا . لیکن یہاں کچھ درختوں اور خال خال سبزے کے بیچ مٹیالے راستوں کے تعمیراتی سلسلوں تک جاتے بیزار کن مرحلے تھے  .  بکھری عمارتوں میں ٹوٹے ہوئے سرامک ٹائل سے بنے ڈیزائن منفرد لگے.  سرپینٹائن بینچ اور گاوڈی میوزیم کی تعمیر بھی  انوکھی تھی لیکن انھیں شاہکار یا معجزاتی کہنا ٹھیک بات نہ لگی . پھر بھی اتنی بلندی سے  بارسلونا کے کوچہ و بازار ، عمارتوں اور شہری ہما ہمی کو  ساحل سمندر سے گلے ملتے دیکھنا  ایک یادگار تجربہ ضرور رہا …… جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *