Skip to content
Home » Blog » معیشت کا غیبی ہاتھ ، دنیا گر ، انشے سیریل ، چوتھا انشا Adam Smith, the invisible, DUNYAGAR, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 4

معیشت کا غیبی ہاتھ ، دنیا گر ، انشے سیریل ، چوتھا انشا Adam Smith, the invisible, DUNYAGAR, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 4

Ideas of Adam Smith is the invisible hand that sculpted the unmatched global prosperity in the history of mankind

دنیاگر واقعات ، نظریات ، شخصیات اور ایجادات پر مبنی انشے
A serial of short stories about ideas, events, personalities, and discoveries that shaped our world
معیشت کا غیبی ہاتھ ، دنیا گر ، انشے سیریل ، چوتھا انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
کلاس ختم ہو چکی تھی لیکن ٹیٹوریل روم میں غیر رسمی گفتگو جاری تھی . پروف بولے .  پچھلے دو سو پچاس برسوں میں عالمی معاشی ترقی کی رفتار حیرت انگیز رہی ہے.  پوری دنیا تجارتی طور پر ایک دوسرے سے جڑ کر ایک اکائی بن گئی ہے . سمندروں میں تیرتے کنٹینر شپ ، فضا من اڑتے کارگو جہاز ، سڑکوں پر رواں ہیوی ڈیوٹی ٹرک، ایمیزون پر آن لائن شاپنگ  .  پچھلے دور میں یہ سب ناممکن تھا .  تب کچھ لوگ بے حد امیر تھے لیکن عوام کی اکثریت سطح غربت سے بہت نیچے تھی .  آج کی یہ  خوشحالی فری مارکیٹ اکانومی اور عالمی تجارت کی وجہ سے  ہے .  یہ سب ایک شخص کی سوچ اور خیال سے شروع ہوا تھا . ہم سب کی اٹھی سوالیہ نگاہوں کو مخاطب کر کے بولے . معاشیات کے بانی اور اخلاقی فلسفی ایڈم سمتھ کے تصورات نے جس قدر خوشحالی، اچھی صحت اور طویل زندگی عام لوگوں کو دی  ہے ،  پچھلی ڈھائی ہزار سالہ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی .  وہ سترہ سو تیئیس میں اسکاٹ لینڈ کے قصبے کرک کالڈی میں پیدا  ہوا .  بہت کم عمری میں والد کا انتقال ہوگیا،  تربیت اس کی ماں مارگریٹ نے کی . کبھی کبھار گم سم رہنے اور خود کلامی کرنے والا فلسفے ، لاطینی زبان اور ریاضی کا ذہین طالب علم جو بچپن ہی سے بھرپور مطالعے کا عادی تھا  چودہ سال کی عمر میں گلاسکو یونیورسٹی میں داخل ہوا .  گریجویشن کے بعد اوکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کی اور پھر  ایڈنبرا یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر ہوا.  وہیں اس کی ملاقات اس دور کے مشہور فلسفی ڈیوڈ ہیوم سے ہوئی .  اگلے چند برسوں میں اس نے معاشیات اور فلسفیانہ موضوعات پر ڈیوڈ ہیوم  کے ساتھ طویل مباحثوں سے بہت سیکھا ۔ پھر وہ عالمی معیشت پر اثر انداز کیونکر ہوا ؟ سوفی نے پوچھا . بولے . اپنی دو کتابوں کے ذریعے سے .  پہلی کتاب اخلاقی فلسفے سے متعلق تھی.  نام تھا تھیوری آف مورل سنٹی منٹس.  اس کتاب سے شہرت ملی تو اسے ڈیوک آف ایڈنبرا کا اتالیق مقرر کردیا گیا . یوں پورے یورپ میں سفر کرنے اور اس دور کے عظیم دانشوروں جن میں بینجامن فرینکلن بھی شامل تھا سے ملنے اور سیکھنے کا موقع ملا . پھر اس نے معاشیات  اور فلسفے سے متعلق اپنے  افکار اور حاصل شدہ دانش کو بنیاد بنا کر  سترہ سو چھہتر میں اپنی عالمی شہرت یافتہ کتاب ویلتھ آف نیشن لکھی جو دنیا کی مؤثر ترین کتابوں میں سے ایک ہے . یہ کتاب موجودہ دور کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے . اس میں بیان کردہ تصورات ، اصول اور وضاحتیں موجودہ معاشی نظام کو بنیادی  ڈھانچہ فراہم کرتی ہیں .  کیا تھے اس کے انقلابی تصورات ؟ رمز نے پوچھا . بولے . معاشیات کا باوا آدم فری مارکیٹ اکانومی کے تصور کا بانی ہے . یعنی ایک ایسی آزاد عالمی معیشت جس میں حکومتوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو بلکہ معاشی اصولوں کی بنیاد پر عالمی معیشت میں شامل تمام اقوام اور افراد کو آزادانہ مواقعے میسر ہوں اور وہ تجارتی اصول و ضوابط خود طے کریں.   آج کل زیادہ تر ممالک میں ملا جلا معیشتی نظام نافذ ہے یعنی کچھ حکومتی کنٹرول اور کچھ فری مارکیٹ اکونومی .  دیگر تصورات میں سے ایک ہے  پیداواری کوششوں کے حوالے سے محنت کی تقسیم کار کا اصول . یعنی اگر کسی بھی پیچیدہ پیداواری عمل کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیا جائے اور مختلف افراد صرف ان چھوٹے حصوں میں اپنی محنت اور صلاحیت کو مرکوز رکھیں تو یہ بات پیداواری صلاحیت اور مضبوط معیشت کے لئے فائدہ مند ہوگی،  اس طرح زیادہ پیداوار اور منافع حاصل ہو سکے گا . دوسرا تصور جو آج بھی رائج ہے وہ ہے گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ کا اصول جسے عام طور پر صرف جی ڈی پی کہا جاتا ہے. یعنی اقوام کی دولت اس کے پاس موجود سونے اور چاندی کی مقدار نہیں وہ پیداواری اور ماہرانہ صلاحیت ہے جو وہ دنیا کو معاوضے کے عوض بہم پہنچا سکتی ہیں . وہ کہتا ہے کہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں اخلاقی اصولوں کے مطابق استعمال کرتے ہوے  خود اپنے ، خاندان اور معاشرے کے کے مفاد میں منافع بخش پیداواری مصروفیت کے ذریعے بہتر قومی معیشت میں حصے دار بن سکتا ہے . وہ معیشت کی سمت طے کرنے والے غیبی ہاتھ کا ذکر کرتا ہے.   یعنی ایسے اصول جو نظر نہیں آتے لیکن معاشی نظام پر اثر ڈالتے ہیں یعنی طلب اور رسد کا اصول . اس کے خیال میں معاشیات کا کنٹرول انہی اصولوں کے زیر اثر ہونا چاہیے حکومتوں کے نہیں . وہ سترہ سو نوے میں ایڈنبرا میں دنیا سے رخصت ہوا۔   تو پھر آج کے نوجوان معیشت دانوں کو کس چلینج کا سامنا ہے ؟ میں نے پوچھا . بولے .  یہ بنیادی سوال کہ آج کل کی اندھی منافع بخش دوڑ میں کیا  کامیابی اور ترقی اہم ہے یا اخلاقی معیارات اور منصفانہ رویہ ؟ کیا فری مارکیٹ اکانومی اب ایک عذاب بن چکی ہے کیونکہ امیر امیر تر ہو رہا ہے اور مڈل کلاس اور لوئر کلاس اپنی اپنی زندگیوں کی جدوجہد میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں؟ …… جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *