Skip to content
Home » Blog » دلکش خواب ، دنیا گر ، انشے سیریل ، آٹھواں انشا Marxism, DUNYAGAR, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 8

دلکش خواب ، دنیا گر ، انشے سیریل ، آٹھواں انشا Marxism, DUNYAGAR, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 8

Story of a social philosopher and a dreamer who was the sheer critic of the current industrial and economic system

دلکش خواب ، دنیا گر ، انشے سیریل ، آٹھواں انشا ، شارق علی، ویلیوورسٹی
بات کمیونزم کی چل نکلی تھی.  پروف بولے . اگر ہم سرمایہ داری نظام کے نقاد ہیں تو اس اعتبار سے مارکسسٹ ہیں .  ایک ایسے سماجی نظام کا خواب کتنا دلکش ہے جس میں پیداواری اضافے کی تقسیم مساوی ہو اور تمام خوش حال انسان مل جل کر ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں.  دولت کمانے کی فکر سے آزاد اور انفرادی تخلیقی صلاحیتوں کے مطابق مصروف . مارکسزم اس خواب کو حقیقت بنا کر پیش کرتا ہے . نوجوان زینوں کا مسحور ہو جانا سمجھ میں آتا ہے . سوفی بولی . کچھ ذکر کارل مارکس کا بھی. بولے . فلسفی اورسماجی دانشور جو سرمایہ داری نظام کو انسانی خوشیوں کا قاتل قرار دیتا ہے . وہ اٹھارہ سو اٹھارہ میں جرمنی میں پیدا ہوا اور نوجوان صحافی کی حیثیت سے کام کرنے لگا . طبقاتی نظام کے خلاف آزاد سوچ رکھنے کہ جرم میں جرمنی سے بھاگ کر لندن آیا اور بقیہ زندگی وہیں علمی کام میں بسر کی . مالی مدد قریبی دوست فریڈرک اینگلز  نے کی جو خود وراثتی طور پر مالدار آدمی تھا. دونوں کی دوستی بہت گہری تھی. مارکس نے بہت سی کتابیں اور علمی مقالے لکھے  . کچھ اینگلز کے اشتراک سے بھی . لیکن وہ اپنے دور کے دانشوروں میں کوئی با عزت مقام  حاصل نہ کر سکا بلکہ نئی دنیا بسانے کے خواب کا مضحکہ اڑایا گیا.  اس کا نظریہ ہے کیا ؟ رمز نے پوچھا . بولے . مارکسزم معاشی نظریہ بھی ہے اور انسانی امنگوں کا ترجمان بھی . سرمایہ داری نظام پر اعتراض یہ ہے کہ وہ عوام کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے وہ دولت ہی کو زندگی کا مرکزی نکتہ سمجھنے لگتے ہیں. انسانی محبت اور خلوص جو اصل خوشی ہیں نظر انداز کر دیے جاتے ہیں . زیادہ ملکیت ہی خوشی  ہے جیسے غلط مفروضے جڑ پکڑتے ہیں . محدود سوچ  اور مطمئن غلامانہ سیاسی طرز زندگی تخلیقی صلاحیتوں سے عاری کر دیتی ہے. اسمبلی لائن کام شخصی بیگانگی کی سمت لے جاتا ہے.  تسکین مہیا نہیں ہوتی . خیال اور عمل کے اس ڈسکنیکٹ کو اس نے ایلیینیشن کا نام دیا. کارکن عدم تحفظ کا شکار اور سرمایہ دار کے لئے منافع کارکنوں کے مفاد سے زیادہ اہم ہوتا ہے .  ٹیکنالوجی کا فائدہ سرمایادار اٹھاتا ہے. مارکس منافع کو چوری کہتا ہے . کم اجرت پر حاصل صلاحیت کو مہنگے داموں بیچنے کی چوری . اور اس کا حل ؟ میں نے پوچھا . بولے . وہ اپنی کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو میں ظلم و ستم کے خاتمے کا راستہ انقلاب کو بتاتا ہے . ایسا سماج جس میں ذاتی ملکیت اور وراثت نہ ہو.  انکم ٹیکس ختم ہوتا چلا جائے . ذرائع آمدورفت، ابلاغ ، تعلیم ، صحت اور تمام پیداواری فیکٹریاں مرکزی حکومت کے پاس ہوں . عوام کو مفت تعلیم ، ضروریات زندگی ، علاج  اور تخلیقی صلاحیتوں کے اعتبار سے آگے بڑھنے کا موقع مل سکے . وہ مذہب ، جمہوریت،  اور آزادی اظہار جیسے تصورات سے پیچھا چھڑانے کی حمایت کرتا ہے . ظاہر ہے بہت سے لوگ ایسا کرنا نہیں چاہیں گے اس لئے جبری سزائیں کمیونسٹ حکومت کی ضرورت بن جاتی ہیں . سوفی بولی. کوئی عملی مثال ؟ بولے . انیس سو سترہ میں لینن کا سرخ انقلاب . لینن اور اسٹالن نے جو طرز حکومت انقلاب کے بعد سوویت یونین میں قائم کی وہ کمیونزم کہلایا.   سوویت یونین کے علاوہ  چین ، شمالی کوریا ، مشرقی یورپ اور جنوبی امریکا کے کچھ ممالک کی ڈکٹیٹر حکومتوں نے بھی ان نظریات کی تقلید کا دعوہ کرتے ہوے  اپنے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور ایک تباہ کن معیشتی نظام کے زیر سایہ بھوک ، غربت اور خانہ جنگی کی صورتحال سےدوچار رہے . مارکسی نظریہ ناکام دانش نہیں. سرمایہ داری نظام کی خرابیوں کی نشاندہی میں یہ بہت کامیاب ہے،  لیکن درستگی کے حل عملی صورت میں ناکام ہوے. .جیسے مارکسزم  وسائل کو اہلیت اور ضرورت کی بنیاد پر آپس میں منصفانہ تقسیم کر لینے کا حامی ہے . عملی سوال یہ ہے کہ اہلیت اور ضرورت کا تعین کرے گا کون ؟ جواب ہے اقتدار پر قابض طبقہ ۔ گویا مارکسزم حکومت کے لامحدود اختیارات کی حمایت کرتا ہے.  یہ ایک تباہ کن خیال ہے.  اسی سے کمونسٹ ممالک میں ڈکٹیٹرشپ کی راہ ہموار ہوئی . ممکن ہے مستقبل میں سرمایہ داری نظام کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مارکسی سوچ ہماری رہبر ہو………… جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *