Skip to content
Home » Blog » انطالیہ کا سلطان ، سیج یونیورسٹی، انشے سیریل ، اڑتالیسواں انشا Antalya, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 48

انطالیہ کا سلطان ، سیج یونیورسٹی، انشے سیریل ، اڑتالیسواں انشا Antalya, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 48

Antalya is the pearl city of the Mediterranean and Turkish Riviera.  A combination of history and natural beauty makes it a favorite destination for many tourists. Meet the Sultan in this story

انطالیہ کا سلطان ،  سیج یونیورسٹی،  انشے سیریل ، اڑتالیسواں انشا ،  شارق علی
ہم انطالیہ میں تھے . پروفیسر گل سفرنامے کے موڈ میں تھے . بولے . آبادی کے لحاظ سے ترکی کا پانچواں بڑا شہر ہے یہ  . طورس پہاڑیوں کے پس منظر میں میڈی ٹرینیان کے حسین کناروں پر دو سو قبل مسیح سے آباد ایک پر وقار قدیم  شہر،  جس نے رومن اور سلجوقی دور میں اپنا عروج دیکھا ہے  . یہ آج بھی سیاحوں کی محبوب ترین منزلوں میں سے ایک ہے . ہمارا قیام ایحان ہوٹل میں تھا جو شہر کے قدیم حصّے کلیسی سے صرف چند سو گز کی دوری پر تھا ۔ سامان کمرے میں رکھ کر پیٹ پوجا کے لیے نکلے تو مغرب ڈھل چکی تھی.  مشہور ٹرکش بیکری ریستوران سیمت سرائے میں نرم بیگل کے ساتھ پنیر اور موزیک کیک کا ایک ٹکڑا کھایا،  لطف آگیا ۔ پھر سیاحوں سے بھرے با رونق جمہوریت میدان میں دیر تک ٹہلتے رہے.  وہیں ایک پہاڑی پر بنی گیلری سے کوئی دو سو فُٹ نیچے قدیم انطالیہ کی بندرگاہ پر نظر ڈالی تو منظر کی دلکشی دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔ انگریزی حرف سی کی شکل کی قدرتی بندرگاہ  کے دونوں کونوں پر بنے روشن لائیٹ ہائوسز کی روشنی اور اُن کے درمیان سے گذرتی آبی گزر گاہ  جو میڈیٹر ینین کے کھلے سمندر تک کشتیوں کو رسائی فراہم کرتی ہے۔ کنارے پر ترتیب سے لنگر انداز بادبانی کشتی نما موٹر بوٹس اور ساتھ بنے با رونق ریستورانوں میں سیاحوں کی چہل پہل. رات کے اندھیرے میں یہ  جھلملاتی بندرگاہ اور وہاں سے پہاڑی پر بنے قلعہ اور قدیم شہر تک اوپر جاتی اور باغ سے گزرتی سیڑھیاں ، سلجوقی طرز کے تراشیدہ پتھروں سے بنے زرد روشنیوں میں نہاے مکانات اور پر رونق بازار.   جیسے کوئی سحر انگیز پریوں کا دیس۔ منظر اتنا دلکش تھا کہ یہ سب قریب سے اور چھو کر دیکھنے کی خواہش نے بے تاب کر دیا ۔  اگلی صبح ناشتے کے بعد ٹیکسی پکڑی اور کلیسی کی تفصیلی سیر کے لئے ہیڈرین گیٹ پہنچ گئے ۔ رومن بادشاہ ہیڈرین کی انطالیہ آمد کے موقع پر ایک سو تیس صدی عیسوی میں تعمیر کیا جانے والا یہ فتح مندی کا یادگاری دروازہ آج بھی قابلِ دید ہے ۔ یہ اُس زمانے کے شہر اور اُس کی فصیلوں کی واحد یادگار ہے جو اب تک باقی ہے۔ اسے ۱۸۱۷ء میں ایک آئرش  نے دریافت کیا تھا ۔ سنگلاخ پتھروں سے بنے چار ستونوں پر تین محرابی دروازے جو تقریباً آٹھ میٹر اونچے ہیں اور ویسے ہی سنگلاخ پتھروں سے بنا فرش اور چڑھتی اُترتی سیڑھیاں . تیرھویں صدی میں سلجوق بادشاہ کیکا باد کے زمانے میں اس کی تعمیر نو ہوئی تھی.  شاید یہی باقیات اب تک موجود ہیں کیونکہ دیواروں پر کنداں عربی عبارت اب تک صاف پڑھی جاسکتی ہے ۔ کلیسی قدرتی بندرگاہ کے ساتھ واقع  ہلکی سر سبز پہاڑیوں پر بسی مسحُورکن قدیم بستی ہے . اُونچے نیچے راستوں پر چہل قدمی کرتے اور قدیم محلات نما گھروں کے پاس سے گذرتے اس کے حسن سے تعارف گہری انسیت میں بدل جاتا ہے ۔ دونوں جانب صدیوں پرانی محلات نما حویلیاں ہیں جن میں سے اکثر پانچ ستارہ ہوٹلوں میں تبدیل ہو چکی  ہیں. اب وہاں کیکباد یا عثمانی دور کے امرا نہیں ، دور دراز سے آے سیاح چند روز قیام کرتے ہیں. رات ہوتی ہے تو سنگلاخ طرز تعمیر پر چھپپے ہوے قمقموں سے گرتی روشنیاں کچھ ایسا تاثر دیتی ہیں  جیسے ہر سمت مشعلیں اور چراغ روشن ہوں.  دور دراز مسافتوں سے آے اجنبی ملاحوں کو خوش آمدید کہتا صدیوں پرانا ماحول دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے  ۔ فصیلوں سے گھرا کلیسی تاریخی اعتبار سے تو رومن زمانے میں  آباد ہوا لیکن تیرھویں صدی میں تعمیر شدہ بیشتر عمارتیں مجموعی ماحول کی نمائندگی کرتی ہیں.  ساتھ جُڑے بازار جدید انطالیہ کے بازاروں تک چلتے چلے گئے ہیں۔ دوسرے دن بندرگاہ پوھنچے اور دو سو لیرا کا ٹکٹ لے کر  جب ہم بادبانی شکل کی دو منزلہ موٹر بوٹ میں سوار ہونے لگے تو سفید جرسی اور نیلا نیکر پہنے، کچھ رومن کچھ ترکتش خد و خال والا، ادھیڑ عمر ، ہنستا مسکراتا میزبان ملاح، سلطان، خوش آمدید کہنے والوں میں سب سے ممتاز تھا.  سیر کا آغاز ہو ا اور کشتی آبی گذرگاہ کے دائیں بائیں لائیٹ ہائو سز کے درمیان سے ہو کر گذری اور کھلے سمندر میں پہنچی تو ہم سب کی تواضع ترکش قہوہ سے کرنے والوں میں وہ سب سے پیش پیش تھا ۔  پھر اُس نے کیمرہ نکالا اور ہم سب کی فرداً فرداً تصویریں کھینچیں . پندرہ منٹ کے وقفہ کے بعد وہ یہ تصویریں لیے ہم سب کے پاس باری باری گھومنے اور راضی ہونے پر بیس لیرا فی تصویر بیچنے میں کامیاب ہو ا  ۔ گٹھی ہوئی جسامت اُسے کسی قدیم رومن ملاح سے مشابہت دے رہی تھی.  ایک ایسا مہم جُو  جو رومن عروج میں بادبانی کشتی میں بیٹھ کر قسمت آزمانے انطالیہ آیا ہو اور پھر یہیں کسی مقامی عورت اور اس شہر کے حسن سے مسحور ہو کر آباد ہو گیا ہو . ہو سکتا ہے اُس کے دائیں رُخسار پر دکھتا زخم کسی پُرانی جنگ میں دشمن کی تلوار کا وار ہو . ہو سکتا ہے وہ اُس فتح مند گروہ کا حصّہ ہوجو ہیڈرین کے ساتھ فتح مندی کے دروازوں سے ہو کر جب شہر میں پہنچا ہو  تو شہریوں نے اُس کا والہانہ استقبال کیا ہو.  وقت کتنا ظالم  ہے کہ اب اسے سیاحوں کو قہوہ پیش کر کے ہونے والی آمدنی سے گزارا کرنا پڑتا ہے ۔ بادبانی کشتی سیر سے واپسی پر قدرتی بندرگا ہ کی طرف بڑھی تو دائیں طرف کنارے کی اونچی سنگلاخ چٹانوں سے پھوٹتی میٹھے پانی کی دودھن آبشار تھی جو  جھرنے کی صورت سمندر کی لا متناہی وسعت میں شامل ہو رہی تھی.  جیسے کسی فرد کی انفرادی زندگی تاریخ کی لا متناہی وسعت میں گم ہوتی ہوئی—– جاری ہے، شارق علی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *