Skip to content
Home » Blog » ابن رشد ، دنیا گر ، انشے سیریل ، دسواں انشا Averroes, DUNYAGAR, URDU PODCAST SERIAL, EPISODE 10

ابن رشد ، دنیا گر ، انشے سیریل ، دسواں انشا Averroes, DUNYAGAR, URDU PODCAST SERIAL, EPISODE 10

Averroes is one of the greatest thinkers and scientists of history who successfully integrated Aristotelian philosophy with Islamic thought. His role in reawakening of western philosophy is unquestionable

ابن رشد ، دنیا گر ، انشے سیریل ، دسواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
ٹی ہاؤس خاصا پر سکون تھا . رمز نے پروفیسر گل سے پوچھا . اسلامی دنیا کا کوئی عظیم فلسفی ؟ بولے . فلسفیانہ سوچ کے ارتقا کی بات ہو تو زہن خود بخود مغربی مفکرین کی طرف جاتا ہے ۔ کلاسیکی فلسفی جیسے افلاطون ، ارسطو ، سسرو  یا پھر رینےساں دور کے نسبتا جدید فلسفی جیسے كانٹ ، سپائنوزا ، ڈے کارٹ وغیرہ.  فلسفے کے ان دو تابناک ادوار کے درمیان دور تاریک یا قرون وسطیٰ میں جس روشن ذہن فلسفی نے ایک ساتھ اسلامی اور مغربی دنیا کو متاثر کیا وہ ہے ابن رشد . مغربی دنیا اسے ایوروس کے نام سے جانتی ہے اور ارسطو  پر لکھے گئے اس کے تبصروں کے حوالے سے اسے دی کومنٹیٹر کے لقب سے پکارتی ہے .  اس کی فکر تاریک رات میں روشن چراغ کی مانند تھی .  اس نے مذہبی فکری اور سیاسی  تسلط کے اس دور میں بے حد روشن خیال نظریات کا بیان کیا ہے . بعض مورخین اسے سیکولرازم کے خیال کا بانی اور پہلا حمایتی بھی کہتے ہیں . اسلامی دور کے اندلسی قرطبہ میں گیارہ سو چھبیس میں ایک علمی خانوادے میں پیدا ہونے والا یہ عظیم فلسفی ، اسلامی عالم اور قاضی شہر بیک وقت بہت سے علوم کا ماہر تھا . فلسفہ ، مذہبیات ، طب ، فلکیات ، لسانیات ، اسلامی فقہ حتی کے کلاسیکی موسیقی پر بھی اس نے بھرپور تحریری افکار چھوڑے ہیں . اس کی وفات گیارہ سو اٹھانوے میں مراکش میں ہوئی. سوفی بولی . اس کی سوچ تھی کیا ؟ کہنے لگے . وہ اپنی تحریروں میں ارسطو کے فلسفے اور قوانین قدرت کی موجودگی کا دفاع کرتا ہے ۔ وہ اپنے سے پہلے کے عالموں جیسے فارابی، ابو کندی اور ابن سینا کے افلاطونی رحجانات پر  تنقید کرتا ہے . جہاں ایک جانب امام غزالی قران کی لفظی تفہیم پر زور دیتے ہیں  اور ریاضی  ، فلسفے اور سائنس سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں اور فکری کوشش سے عاری اندھا یقین قائم رکھنے پر اصرار کرتے ہیں . تاثر دیتے ہیں کہ کائنات میں ہر چیز خدا کی مرضی سے ہوتی ہے اور انسان بے بس ہے .  وہاں ابن رشد کی جراتمندانہ فکر وضاحت کرتی ہے کہ بے شک خدا ہی قادر اور مالک ہے لیکن اسی  نے قوانین قدرت تخلیق کیے اور انسان اور اس کائنات اور حقیقت حال کو ان قوانین کے زیر نگین کیا .  جب ہم فکری کوشش ، فلسفیانہ منطق ، سائنسی دلیل ، یا مشاہدے سے کائنات میں کار فرما ان قوانین قدرت کو سمجھ لیتے ہیں تو ہم عملی طور پر مؤثر ہو جاتے ہیں . وہ کہتا ہے اگر کپاس آگ پکڑتی ہے تو اس لئے نہیں کے یہ ہر بار خدا کی مرضی ہے بلکے اس لئے کے کپاس کی مادیت کا اصول ایسا ہے . وہ قرآن اور حدیث کی تفہیم میں عقل کے استعمال بلکہ اسے اولیت دینے کی حمایت کرتا ہے.  وہ کہتا ہے جہالت خوف کی سمت لے جاتی ہے ، خوف نفرت کی اور نفرت تشدد کی سمت  . عالموں کی فوج بھی آ جاے تو وہ  جھوٹ کو سچ میں تبدیل نہیں کر سکتی . وہ بارہویں صدی میں عورتوں کے مساوی انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور انھیں پالتو جانور سمجھنے کی شدید مذمت کرتا ہے . میں نے پوچھا . اور اس کے مخالفین ؟ بولے .  قرطبہ اور سیوائل کے قاضی شہر اور اپنے وقت کے اس جید عالم  نے ارسطو کی منطق کو اسلامی فقہ کی بنیاد بنایا اور یہ روایت آج تک قائم ہے. اسے خلیفہ وقت ابو یعقوب یوسف کی سرپرستی حاصل رہی جس نے اسے اپنا شاہی طبیب اور قاضی شہر مقرر کیا . ظاہر ہے اس دور کے رجعت پسند سیاسی عالموں کو اس کی روشن خیالی ایک آنکھ نہ بھائی . درباری سازشوں کی وجہ سے اسے آخری عمر میں جلا وطنی کی مشقت سے گزرنا پڑا. اسلامی دنیا میں اس کی کتابوں کو نذر آتش کیا گیا . موت سے ذرا پہلے اس کی حیثیت با عزت طور پر بحال ہوئی . رمز بسکٹ پر ہاتھ صاف کرتے ہوے بولا . اور طب  میں اس کی حصے داری ؟ بولے. طب میں علمیت کا یہ عالم تھا کہ وہ شاہی طبیب مقرر ہوا . اس نے فالج یا سٹروک کے بارے میں انسانی تاریخ میں پہلی بار وضاحتی تھیوری پیش کی.  پارکنسنز ڈزیز کی علامات کا بیان کیا اور  بصارت کی ریٹنا کی حساسیت سے منسلک ہونے کی دریافت کی ۔ اس کی کتاب الکلیات فی الطب جو میڈیکل انسیکلوپیڈیا ہے ، کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا اور یورپ اس کتاب کو کولیجٹ کے نام سے جانتا ہے. یہ کئی سو برس تک نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی . میں نے کہا  . یورپ میں  اتنی مقبولیت آخر کیوں ؟ بولے .  لاطینی اور عبرانی زبان میں ترجمہ ہو کر اس کے افکار مغرب میں بہت مقبول ہوے. یورپ نے رومن زوال کے بعد یونانی فلسفے کو یکسر بھلا دیا تھا.  اگر بارہویں صدی میں ابن رشد اپنی تحریروں میں ارسطو اور دیگر یونانی فلسفیوں کی سوچ کو دوبارہ زندہ نہ کرتا تو شاید مغربی یورپ میں تاریک دور کا اختتام اور روشن خیالی کے دور کا آغاز نہ ہو پاتا۔ ابن رشد کی تحریروں اور افکار نے اس دور کے عیسائی طرز فکر پر بھی کاری ضرب لگائی اور باقاعدہ ایک باغی فلسفیانہ طرز فکر کو بڑھاوا ملا جو اس کے نام کی نسبت سے ایوروسزم کہلایا …… جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *